Maktaba Wahhabi

523 - 589
[میں تجھ سے ہر اس نام سے مانگتا ہوں جس سے تو نے اپنی ذات کو موسوم کر رکھا ہے] بعض علما کا خیال ہے کہ اللہ کے ہزار نام ہیں ، مگر یہ کم ہیں ۔ حقیقت میں اسماے الٰہیہ خواہ کتنے ہوں ، ہم کو اسی قدر معلوم ہیں ، جتنے قرآن و حدیث میں آئے ہیں ۔ حدیث مذکور سے بعض لوگوں نے یہ سمجھا ہے کہ اسم عین مسمی ہوتا ہے، لیکن یہ درست نہیں ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس جگہ تسمیہ مراد ہے۔ اس مسئلے میں کسی غور و خوض کی ضرورت نہیں ہے۔ سلف نے اس میں غور و خوض سے احتراز کیا ہے۔ یہ بلا خلف میں علم کلام کے راستے سے آئی ہے۔ مسلمان کی خوبی یہ ہے کہ وہ فضول کلام سے بچے اور گمراہوں کے ساتھ ﴿وَکُنَّا نَخُوْضُ مَعَ الْخَآئِضِیْنَ﴾ [المدثر: ۴۵] [ہم خوض کرنے والوں کے ساتھ خوض کرتے ہیں ] پر عمل نہ کرے۔ اللہ تعالیٰ نے قرون ثلاثہ مشہود لہا بالخیر کو اس آفت سے عافیت میں رکھا تھا۔ جب متکلم فقہا اور صوفیہ آئے تو یہ خرافات لائے اور اس کو علم سمجھا اور یہ نہ سمجھے کہ حدیث میں آیا ہے: (( إِنَّ مِنَ الْعِلْمِ جَھْلاً )) [1] [بعض علوم جہالت کے آئینہ دار ہوتے ہیں ] اسماے الٰہیہ کی قسم: رہی یہ بات کہ ان ناموں کی قسم کھانی چاہیے یا نہیں ؟ فتح الباری میں لکھا ہے کہ اللہ کے جو نام قرآن و حدیث سے ثابت ہیں ، ان کی قسم کھائی جا سکتی ہے۔ امام شوکانی رحمہ اللہ نے بڑے اختصار سے فرمایاہے: ’’الحلف إنما یکون باسم اللّٰه، أو صفتہ لہ، و یحرم بغیر ذلک‘‘ ’’قسم اللہ کے نام اور اس کی صفت کی کھائی جا سکتی ہے اس کے سوا قسم کھانا حرام ہے۔‘‘ اسم سے مراد ننانوے نام ہیں اور صفت سے مراد مثلاً یہ کہا جائے: ’’ورب الکعبۃ، والذي نفسي بیدہ، ومقلب القلوب، وعزتک‘‘ وغیرہ۔ غیر اللہ کی قسم کھانا، خواہ وہ پیغمبر ہو یا پیر، بادشاہ ہو یا امیر، قبر ہو یا اور کچھ، اس لیے حرام ٹھہرا ہے کہ حدیث میں آیا ہے: (( مَنْ حَلَفَ بِغَیْرِ اللّٰہِ فَقَدْ کَفَرَ )) [2] [جس نے غیر اللہ کی قسم کھائی یقینا اس نے کفر کیا] اس کو ترمذی نے حسن اور حاکم نے صحیح کہا ہے۔ دوسری روایت میں ہے:
Flag Counter