Maktaba Wahhabi

325 - 589
مقدمہ ذیل میں بعض ان الفاظ کا بیان کیا جاتا ہے جن سے بعض عقدی امور میں اختلاف و التباس پیدا ہوتا ہے۔ بنیادی طور پر یہ چار الفاظ ہیں : 1۔ استغاثہ: استغاثہ کا مطلب ہے فریاد رسی چاہنا، یعنی بندے کو جو تکلیف ہے وہ دور ہو جائے، جیسے ’’استنصار‘‘ یعنی مدد مانگنا۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ جن کاموں پر مخلوق کو قدرت حاصل ہے، ان کاموں میں مخلوق سے استغاثہ کرنا جائز ہے۔ اس کے جواز پر چنداں استدلال کی ضرورت و حاجت نہیں ہے، کیونکہ یہ بات نہایت واضح ہے اور یہ گمان نہیں کیا جا سکتا کہ اس میں کسی کا اختلاف ہو۔ اس استغاثے کے جواز میں یوں تو بہت سے دلائل ہیں ، لیکن بہ طورِ مثال قرآن مجید کی چند آیات پیش خدمت ہیں ۔ 1۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿ فَاسْتَغَاثَہُ الَّذِیْ مِنْ شِیْعَتِہٖ عَلَی الَّذِیْ مِنْ عَدُوِّہٖ﴾ [القصص: ۱۵] [تو جو اس کی قوم سے تھا اس نے اس سے اس کے خلاف مدد مانگی جو اس کے دشمنوں سے تھا] 2۔نیز فرمایا: ﴿ وَ اِنِ اسْتَنْصَرُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ فَعَلَیْکُمُ النَّصْرُ ﴾ [الأنفال: ۷۲] [اور اگر وہ دین کے بارے میں تم سے مدد مانگیں تو تم پر مدد کرنا لازم ہے] 3۔اسی طرح یہ بھی فرمایا ہے: ﴿ وَ تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَ التَّقْوٰی﴾ [المائدۃ: ۲] [اور نیکی اور تقوے پر ایک دوسرے کی مدد کرو] مخلوق سے استغاثے کی مثال یوں سمجھو کہ مظلوم کسی شخص سے کہے: مجھ پر ظلم ہو اہے، تم اس کام میں میری مدد کرو۔ جیسے اسرائیلی نے قبطی کے خلاف مدد طلب کرتے ہوئے موسیٰ علیہ السلام سے کہا تھا۔
Flag Counter