Maktaba Wahhabi

297 - 589
احاطہ و شمول کی زیادتی پائی جاتی ہے، کیونکہ جب یہ مِلک ایسے دن کا ہے جو دن جزا کا دن ہے اور ہر قسم کے بدلے پر مشتمل ہے تو جس کے مِلک میں یہ چیز ہو، وہ یقینا اسی لائق ہے کہ بندے اسی کے لیے توحید کو خالص کریں اور تنہا اسی کی عبادت بجا لائیں ، جس طرح کہ وہ اس عظیم الشان دن کی مِلک میں تنہا ہے۔ پھر اگر کوئی کہے کہ لفظ ’’دین‘‘ سے تم نے باعتبار لفظ اور باعتبار تعریف کے جو دو معنی نکالے ہیں ، یہ تو اس کے اضافی معنی کے زمرے میں بیان ہو چکے ہیں ، جیسا کہ تم نے پہلے ذکر کیا ہے، تو ہم کہیں گے: ’’لا تزاحم بین المقتضیات‘‘ [ایک سے زیادہ مقتضا میں مخالفت نہیں ہوا کرتی] کسی لفظ پر کبھی اس کے افرادی معنی کے اعتبار سے اور کبھی اس کے اضافی معنی کے اعتبار سے نظر کرنا کوئی عجیب کام ہے نہ یہ ممنوع ہی ہے۔ خصوصاً اس شخص کے نزدیک جو علمِ دقائق اور اسرارِ عربیت کے علم سے بہرہ مند ہو، یعنی وہ علمِ معانی و بیان کا عالم ہو۔ 19، 20، 21۔﴿ایاک نعبد﴾ میں اخلاصِ توحید: فرمانِ الٰہی ﴿ایاک نعبد﴾ میں ﴿إیاک﴾ ضمیر منصوب کو عامل فعل سے منفصل مقدم کر دیا گیا ہے، لہٰذا جہاں پر ایسی ضمیر کو، جو مابعد فعل کی معمول ہے، مقدم کر دیا گیا ہو، وہ اختصاص کا فائدہ دیتی ہے، تو ﴿إیاک نعبد﴾ سے ثابت ہوا کہ عبادت صرف اللہ ہی کے لیے خاص ہے اور اللہ جو مختص بالعبادۃ ٹھہرا وہی اخلاصِ توحید کے بھی لائق ہے۔ پھر ﴿نعبد﴾ فعل کا مادہ ایک دوسرے معنی کا فائدہ دیتا ہے۔ پھر اس کو جمع متکلم کے صیغے سے تعبیر کرنا اس بات کو واجب کرتا ہے کہ یہ کلام من جملہ عابدین کے ہر عبادت کو قائم کرنے والے سے صادر ہوتا ہے اور اس سے ایک تیسرے معنی کا ثبوت ملتا ہے۔ تو اس پورے جملے سے تین دلالتیں حاصل ہوئیں : 1۔ ایک دلالت لفظ ﴿إیاک﴾ میں اس کے ما بعد فعل سے قطع نظر کرنے سے۔ 2۔ دوسری دلالت مادۂ ﴿نعبد﴾ سے حاصل ہوئی، اس بات کو ملاحظہ کرتے ہوئے کہ یہ مادہ اس کے لیے واقع ہوا ہے جس سے یہ ضمیر عبارت ہے اور اس کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ 3۔ تیسری دلالت ﴿نعبد﴾ کے نون جمع سے ان دو امروں کا ملاحظہ کرتے ہوئے حاصل ہوئی جن کا ابھی ذکر ہوا ہے، لہٰذا ثابت ہوا کہ مقتضیات میں کوئی تضاد نہیں ہوتا ہے۔ 22، 23، 24۔﴿إیاک نستعین﴾ میں اخلاصِ توحید: ایک معنی تو اسی ضمیر ﴿إیاک﴾ سے ثابت ہوا جو اپنے مابعد فعل کی معمول ہے۔ پھر مادہ فعل
Flag Counter