Maktaba Wahhabi

143 - 589
’’مومن کو حدیثِ نفس اور دل کی بات معاف ہے، اس پر مواخذہ نہیں ہے، جب تک زبان سے کلام نہ کرے یا ویسا کام نہ کرے۔‘‘[1] (رواہ مسلم) 7۔سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے خبر دی ہے: (( إِنَّ الْإِسْلَامَ بَدَأَ غَرِیْبا،ً وَّسَیَعُوْدُ غَرِیْباً کَمَا بَدَأَ فَطُوْبٰی لِلْغُرَبَائِ )) [2] (رواہ مسلم) [یقینا اسلام اجنبیت کی حالت میں شروع ہوا اور عن قریب اپنی ابتدا کی طرح پھر غریب (اجنبی) ہو جائے گا، پس غربا کے لیے بشارت ہے] اس حدیث کا مصداق موجودہ دور میں بدرجہ کمال موجود ہے، مگر اس کے ساتھ ساتھ ہم جیسے غریبوں کے لیے بشارت بھی ہے، بشرطیکہ ہم اپنے ایمان و اسلام پرصابر و ثابت رہیں اور دشمنانِ اسلام کے بہکانے، ڈرانے اور لالچ دینے سے اسلام و ایمان سے منحرف نہ ہو جائیں ، لیکن اب تو یہ بات بھی غریب ہو گئی ہے۔ واللّٰه یعلم و أنتم لا تعلمون۔ تنبیہ: ہم نے اس جگہ کلمۂ شہادت کے فضائل و منافع کا ذکر اور ابوابِ ایمان کا ذکر اس لیے کیا ہے کہ اصل ایمان کی صحت اس کلمے کی تصدیق و اخلاص کے ساتھ دل کی تہ سے منسلک ہے۔ جب اس کی فضیلت اور منفعت کا علم ہو جاتا ہے تو دل سے اس نعمت کو حاصل کرنے کا ایک ولولہ اور جوش اٹھتا ہے۔ ایک عقل مند شخص اس بات کو بہ خوبی جان لیتا ہے کہ جب صدقِ دل کے ساتھ کلمہ شہادتین کا محض تلفظ کرنے سے یہ قابل ستائش انجام ہوتا ہے تو پھر اعمالِ صالحہ اور احکامِ ایمان کے بجا لانے سے بلند مدارج و مراتب کی ترقی کیوں کرحاصل نہ ہو گی، اس لیے کہ محض نجات کا حصول ایمان کا ایک ادنا سا درجہ ہے اور ایمان کا اعلا مرتبہ یہ ہے کہ آدمی عظیم کامیابی حاصل کرے۔ شفاعت سے بہرہ مند ہونے والے خوش نصیب: سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ایک لمبی حدیث میں شفاعت سے متعلق آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’میں ہر بار اللہ تعالیٰ سے اجازت مانگوں گا (اور اجازت ہونے پر) پھر
Flag Counter