Maktaba Wahhabi

544 - 589
کراماتِ اولیا: کراماتِ اولیا برحق ہیں ۔ ولی وہ ہوتا ہے جو متقی ہو، اللہ کی ذات و صفات کو خوب پہچانتا ہو اور ایمان و اسلام میں مخلص و محسن ہو۔ اس کی کرامت خرقِ عادت ہوتی ہے۔ جس سے یہ خرقِ عادت صادر ہو اور وہ مومن صالح العمل نہ ہو تو سمجھو کہ وہ کرامت نہیں ہے، بلکہ استدراج ہے۔ جس طرح ابلیس آن کی آن میں زمین طے کر کے مشرق و مغرب میں پہنچ کر وسوسہ ڈالتا ہے، یا خون کی طرح آدمی کی رگوں میں دوڑتا پھرتا ہے، یا فرعون کے حکم سے دریاے نیل بہتا تھا یا جس طرح دجال سے متعلق صحیح اخبار میں آیا ہے۔ اس طرح کے کاموں کو کرامات نہیں کہتے ہیں ، بلکہ قضاے حاجات کہتے ہیں ۔ اللہ اپنے دشمنوں کے کام استدراج کے لیے کر دیتا ہے۔ دنیا میں یہ مکر ہوتا ہے اور عقبی میں عقوبت ہوتی ہے۔ فرمایا: ﴿ سَنَسْتَدْرِجُھُمْ مِّنْ حَیْثُ لَا یَعْلَمُوْنَ *وَ اُمْلِیْ لَھُمْ اِنَّ کَیْدِیْ مَتِیْنٌ﴾ [القلم: ۴۵] [ہم انھیں اس طرح ڈھیل دیں گے کہ انھیں علم بھی نہ ہو گا، میں انھیں بتاتا ہوں کہ میری تدبیر مستحکم ہے] حدیث میں آیا ہے جب تم دیکھو کہ اللہ نے کسی بندے کو نعمت اس کے حسب مراد دی اور وہ گناہ پر قائم ہے تو یہ اللہ کا استدراج ہے۔[1] یعنی وہ اس نعمت پر دھوکا کھا کر زیادہ تر عصیان و کفران کرتا ہے۔ ایسا استدراج اللہ کی طرف سے ہو سکتا ہے، یہ نقلاً ثابت ہے اور عقلاً جائز ہے۔ قصۂ ابلیس میں آیا ہے: ﴿ اَنْظِرْنِیٓ اِِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ﴾ [صٓ: ۷۹] [قیامت کے دن اٹھائے جانے تک مجھے مہلت دیجیے] فرمایا: ﴿ فَاِِنَّکَ مِنَ الْمُنْظَرِیْنَ *اِِلٰی یَوْمِ الْوَقْتِ الْمَعْلُوْمِ﴾ [صٓ: ۸۰۔۸۱] [پس بے شک تو ان لوگوں سے ہے جنھیں مہلت دی گئی۔ مقرر وقت کے دن تک] رہی کراماتِ اولیاء اللہ تو قرآن شریف میں مریم[ اور سلیمان علیہ السلام کی کرامت کا ذکر ہے۔ ’’شواہد النبوۃ‘‘[2]میں صحابہ کرام اور اہلِ بیت کی کرامات کا ذکر ہے۔
Flag Counter