Maktaba Wahhabi

314 - 589
ربانی میں مطلوب ہے، اس پر خوب غور کرو!] اس رسالے میں یہ بحث شوکانی رحمہ اللہ کے کلام سے زائد ہے۔[1] مسئلہ خلقِ افعال: خط میں مذکورہ سوالات میں سے ایک سوال مسئلہ خلقِ افعال کی بابت بھی تھا کہ افعال کا حسن و قبح اور خیر و شر اللہ کی طرف سے بطور اختراع و ابداع کے ہے، یا یہ سب کچھ بندے کی اپنی طرف سے ہے؟ اس کے جواب میں امام ربانی رحمہ اللہ نے یہ لکھا ہے کہ اس مسئلے کا دامن بہت وسیع ہے اور اس میں لوگ کئی فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں ۔ اس مسئلے میں کل چودہ اقوال ہیں ، جن میں سے چار قول اہلِ سنت اور اشعریہ کے ہیں اور آٹھ قول معتزلہ اور دو قول جبریہ خالص کے ہیں ۔ اس جگہ ان تمام کا ذکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ یہ سارے اقوال فن کی کتابوں میں مذکور ہیں اور محققین کی ایک جماعت نے اس مسئلے پر تالیفات مرتب کی ہیں ۔ ایامِ شباب میں جب مجھے قیل و قال پر نظر کرنے کا شوق تھا تو میں نے بھی اس سے متعلق ایک تالیف جمع کی تھی۔ لیکن مذکورہ سوال میں سائل نے صرف راجح قول کے متعلق سوال کیا ہے، اس لیے یہاں صرف راجح قول ہی لکھا جاتا ہے۔ تو سنیے! میرے نزدیک راجح قول یہ ہے کہ اس مسئلے میں سکوت کرے اور اس مسئلے میں جو دلالت مطابقی یا تضمنی یا التزامی کے ساتھ دلائل اس باب میں آئے ہیں ، ان کو اسی طرح جاری کرے جس طرح وہ وارد ہوئے ہیں ، ان مباحث سے کچھ تعرض کرے نہ تاویل ہی کے تکلف کو اختیار کرے کہ ان کو حقیقی معنی سے نکال باہر کرے۔ اس مسئلے میں سکوت اختیار کرنے کو، جسے میں نے راجح قرار دیا ہے، بعض متکلمین نے جہل شمار کیا ہے، لیکن میں اس جہل پر راضی ہوں اور بہت سی جگہوں میں تکلفِ علم سے جہل بہتر ہوتا ہے۔ ایسی الجھنوں میں داخل ہونے سے، جس کا اللہ نے اپنے بندوں میں سے کسی کو مکلف و متعبد نہیں ٹھہرایا ہے، جہل بہتر ہے۔ لیکن جس کو وہ چیز گنجایش فراہم نہ کرے جس نے خیر القرون اور ان کے بعد والے لوگوں کو اس مسئلے میں ، اور اس جیسے دیگر مسائل میں گنجایش دی تھی، تو اللہ بھی اس کو گنجایش نہ دے!
Flag Counter