Maktaba Wahhabi

162 - 589
انھوں نے اپنی قوم سے کہا کہ بے شک ہم تم سے اور ان تمام چیزوں سے بری ہیں جنھیں تم اللہ کے سوا پوجتے ہو۔ ہم تمھیں نہیں مانتے اور ہمارے درمیان اور تمھارے درمیان ہمیشہ کے لیے دشمنی اور بغض ظاہر ہو گیا، یہاں تک کہ تم اس اکیلے اللہ پر ایمان لاؤ] اس آیت سے معلوم ہوا کہ اہلِ شرک سے برائت کا اظہار کرنا اور عملاً ان سے بری ہونا واجب ہے۔ اس کا مقصد یہی عبادات میں اخلاص پیدا کرنا، توحید کی تصدیق کرنا اور اسے قبول کر لینا ہے۔ 4۔چوتھی آیت میں آیا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہہ دیا تھا: ﴿ اِِنَّنِیْ بَرَآئٌ مِّمَّا تَعْبُدُوْنَ*اِِلَّا الَّذِیْ فَطَرَنِیْ فَاِِنَّہٗ سَیَھْدِیْنِ﴾ [الزخرف: ۲۶۔ ۲۷] [بے شک میں ان چیزوں سے بالکل بری ہوں جن کی تم عبادت کرتے ہو سوائے اس کے جس نے مجھے پیدا کیا، پس بے شک وہ مجھے ضرور راستہ دکھائے گا] چنانچہ یہی کلمہ اور یہی دعوت ابراہیم علیہ السلام کے بعد باقی رہی۔ کلمہ ’’لا إلٰہ إلا اللّٰہ‘‘ کے بھی یہی معنی ہیں ۔ ابراہیم علیہ السلام سید الموحدین تھے اور قرآن مجید میں جابجا ان کی طرف سے اثباتِ توحید اور نفیِ شرک کو بیان کیا گیا ہے، حتی کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو بھی یہ حکم دیا ہے: ﴿ اَنِ اتَّبِعْ مِلَّۃَ اِبْرٰھِیْمَ حَنِیْفًا وَ مَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ﴾ [النحل: ۱۲۳] [کہ ابراہیم کی ملت کی پیروی کر، جو ایک اللہ کی طرف ہو جانے والا تھا اور مشرکوں سے نہ تھا] یہ خطاب اگرچہ خاص ہے مگر اس کے معنی عام ہیں ۔ ابراہیم اور یعقوبi نے اپنی اولاد کو ان الفاظ کے ساتھ وصیت کی تھی: ﴿ اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰی لَکُمُ الدِّیْنَ فَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ﴾ [البقرۃ: ۱۳۲] [بے شک اللہ نے تمھارے لیے یہ دین چن لیا ہے، تو تم ہر گز فوت نہ ہونا مگر اس حال میں کہ تم فرماں بردار ہو] اس آیت میں مسلمان ہو کر مرنے کا مطلب یہ ہے کہ توحید پر مرو۔ شرک کی معافی نہیں ہے، خواہ اس کے مرتکب پیغمبر ہوں : سورت انعام میں اٹھارہ پیغمبروں کے نام لے کر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
Flag Counter