امام نووی رحمہ اللہ نے امام مازری رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے کہ سارے دم جائز ہیں بشرطیکہ وہ کتاب اللہ یا ذکر اللہ پر مشتمل ہوں اور وہ منتر ممنوع ہیں جو عجمی زبان میں ہوں یا جن کے معانی معلوم نہ ہوں ، کیونکہ ممکن ہے اس میں کفریہ الفاظ شامل ہوں ۔[1]
’’تمائم‘‘ کا واحد تمیمہ ہے، یہ اس چیز کو کہتے ہیں جو گلے میں یا بدن پر لٹکائی جائے، تا کہ اس سے کوئی فائدہ حاصل ہو اور نقصان ٹل جائے۔ زمانہ جاہلیت کے لوگ یہ کام کیا کرتے تھے۔
’’تِوَلَہ‘‘ ایک قسم کا ہار ہے جس کے پہننے یا پہنانے کا مقصد بیوی کو اس کے خاوند کی نگاہ میں محبوب بنانا ہوتا ہے۔ قاموس وغیرہ میں ایسے ہی ہے۔[2] اس کو بھی زمانہ جاہلیت کے لوگ موثر جانتے تھے۔
5۔ ذاتِ اَنواط:
بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو کہا تھا کہ ہمارے لیے بھی ایک ذاتِ انواط مقرر کر دیں ، جس طرح ان لوگوں (مشرکوں ) کا ذاتِ انواط ہے۔ ’’ذاتِ انواط‘‘ ایک بیری کا درخت تھا جس پر (بابرکت بنانے کے لیے) مشرک لوگ اپنے ہتھیار لٹکاتے تھے۔ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
(( اَللّٰہُ أَکْبَرُ! قُلْتُمْ وَ الَّذِيْ نَفْسِيْ بِیَدِہٖ کَمَا قَالَتْ بَنُوْ إِسْرَائِیْلَ اِجْعَلْ لَنَا إِلٰھاً کَمَا لَھُمْ آلِھَۃٌ ))
[اللہ اکبر! قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تم نے بھی وہی بات کہی جو بنی اسرائیل نے کہی تھی کہ ہمیں بھی ان کے معبودوں کی طرح کا ایک معبود بنا دو]
(اسے ترمذی نے ابن ابی واقدلیثی سے روایت کیا اور صحیح کہا ہے) [3]
6۔ غیر اللہ کی قسم کھانا:
غیر اللہ کی قسم کھانے سے متعلق سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
(( مَنْ حَلَفَ بِغَیْرِ اللّٰہِ فَقَدْ کَفَرَ أَوْ أَشْرَکَ ))[4] (رواہ الترمذي و حسنہ، و الحاکم و صححہ)
[جس نے غیر اللہ کی قسم کھائی بلاشبہہ اس نے کفر کیا یا شرک کیا]
|