Maktaba Wahhabi

515 - 589
ہے۔ تمام آسمانی کتابیں ، ادیانِ رسل اور روے زمین کے جملہ دانشور اسی کے قائل ہیں ۔ مٹھی بھر معتزلہ اور جہمیہ فرعونیہ نے مسئلہ صفات کا انکار کیا ہے، لیکن علماے عظام نے ان کے لتے لے ڈالے ہیں اور ان کے کھوٹے اور جھوٹے مسلک کا بخیہ ادھیڑ ڈالا ہے۔ اثباتِ کمال کے لیے ہمارے لیے یہ آیت کافی ہے: ﴿ اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی﴾ [طٰہٰ: ۵] [رحمن عرش پر مستوی ہے] نقص و زوال کی نفی کے لیے یہ آیت شافی ہے: ﴿ لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ﴾ [الشوریٰ: ۱۱] [ اس جیسی کوئی شے نہیں ہے] اگر اعتقادِ اجمالی درکار ہے تو سورت اخلاص کفایت کرتی ہے اور اگر اعتقاد تفصیلی مطلوب ہے تو قرآن کریم اور حدیثِ رسول رحیم ہے۔ اگر ہم اللہ کو اسی طرح پہچانیں ، جس طرح اسے افلاطون، ارسطو، بو علی سینا اور ابن سبعین وغیرہم نے پہچانا ہے تو ہمیں پھر ایسی معرفت کی ضرورت کیا ہے؟ اس سے تو بلا معرفت رہنا بھلا ہے۔ ہم ان کے بندے اور ان کی امت نہیں ہیں ۔ ہمارے لیے ارشادِ ربانی اور ہدایت نبوی کافی و شافی ہے۔ ﴿ثُمَّ ذَرْھُمْ فِیْ خَوْضِھِمْ یَلْعَبُوْن﴾ [الأنعام: ۹۱] [انھیں چھوڑو وہ اپنی غور و خوض میں جھک ماریں ] یہ بیچارے حکما کیا اور ان کی عقل کیا؟ مٹی کہاں اور رب الارباب کہاں ؟! اسما و صفاتِ الٰہیہ کی بے مثالی: شرح حسن العقیدہ میں لکھا ہے: ’’اللہ تعالیٰ اپنی ذات و صفات میں کسی چیز کا محتاج ہے نہ اس پر کوئی حاکم ہے۔ وہی سب کا حاکم ہے۔ غیر کے واجب کرنے سے اس پر کوئی چیز واجب نہیں ہوتی۔ جب وہ کوئی وعدہ کرتا ہے تو اسے پورا کرتا ہے اور یہ ایفاے عہد خود اس کے اپنے اوپر عائد کردہ ذمے داری سے ہوتا ہے۔ اس کے تمام کام حکمت سے پُر ہوتے ہیں ۔ اس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔ اس کا نام ہی حکیم ہے، جو اس کی حکمت کا عکاس ہے۔ فرمایا: ﴿ اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰکُمْ عَبَثًا﴾ [المؤمنون: ۱۱۵]
Flag Counter