Maktaba Wahhabi

606 - 589
جائے گا، کیونکہ اس قتال کا مقصد ہی یہ ہے کہ فتنہ و فساد دور کیا جائے اور مفسدوں کا قلع قمع کیا جائے۔ جب یہ مقصد خود ہی حاصل ہو تو اور بہتر ہو گا، مزید قتل و خونریزی کی ضرورت ہی کیا ہے؟ رہی دوسری شکل تو ایسے باغی کو محارب قرار دیا جائے گا اور اسے ڈاکوؤں اور فسادیوں میں شمار کیا جائے گا۔ ان کی سزا کا بیان قرآن پاک میں موجود ہے۔[1] وہی کافی، وافی اور شافی ہے۔ قضاے فاسق: فاسق شخص کو قاضی یعنی حاکم مقرر کرنا مذاہب ثلاثہ کے علما کے نزدیک جائز نہیں ہے۔ اسی طرح اگر یہ ثابت ہو جائے کہ قاضی نے رشوت لی ہے تو اس کا حکم جاری نہیں ہو سکتا۔ اگر رشوت دے کر عہدۂ قضا حاصل کیا گیا ہے تو قاضی ہونے کے بعد بھی اس کی قضا صحیح ہو گی نہ اس کا نفاذ ہی ہو سکتا ہے۔ یہ تفتا زانی شافعی اور ملا علی قاری حنفی کا بیان ہے۔ اب حرمین شریفین میں غالباً اسی قسم کے قضات آتے ہیں ، جنھوں نے یہ شرعی خدمت بڑی خطیر رقم دے کر حاصل کی ہوتی ہے، لیکن قضا پانے کے باوجود دست برد سے محفوظ نہیں رہ سکتے۔ جب ایسی قضا شافعی اور حنفی مذہب میں درست نہیں ٹھہری تو پھر اصحابِ حدیث کے یہاں ایسی قضا کیا مقام پا سکتی ہے؟ قرآن میں رب کریم نے فرمایا: ﴿ وَ مَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ﴾ [المائدۃ: ۴۷] [اور جو اس کے مطابق فیصلہ نہ کرے جو اللہ نے نازل کیا ہے تو وہی لوگ نافرمان ہیں ] ایک دوسری آیت میں ﴿ظالمون﴾ اور تیسری آیت میں ﴿کافرون﴾ ارشاد ہوا ہے۔ ’’ما أنزل اللّٰه‘‘ سے فقط قرآن ہی مراد نہیں ہے، بلکہ یہ لفظ اپنے عموم کے مطابق خود حدیثِ نبوی کو بھی شامل ہے، اس لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سارے منطوق و ملفوظ کو قرآن میں وحی رب الارباب قرار دیا گیا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے: ﴿ وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی* اِِنْ ھُوَ اِِلَّا وَحْیٌ یُّوحٰی﴾ [النجم: ۲۔۳] [وہ خواہش نفسانی سے بات نہیں کرتا۔ اس کا نطق وحی ہوتی ہے جو اسے کی جاتی ہے]
Flag Counter