Maktaba Wahhabi

54 - 589
4۔حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمہ اللہ کے نواسے اور حضرت شاہ محمد اسحاق دہلوی رحمہ اللہ کے بھائی مولانا شاہ محمد یعقوب مہاجر مکی رحمہ اللہ ، ان سے بذریعہ خط اجازۂ حدیث حاصل کیا۔ نواب صاحب رحمہ اللہ نہایت ذہین تھے اور حصولِ علم کا بے حد شوق رکھتے تھے۔ قوتِ اخذ بہت تیز تھی اور حافظہ مضبوط تھا۔ اکیس برس کی عمر میں تمام مروجہ علوم پڑھ لیے تھے اور فارغ التحصیل ہوگئے تھے۔ بھوپال میں ملازمت اور اس کا اختتام: حصولِ علم سے فراغت کے بعد نواب صاحب رحمہ اللہ اپنے وطن قنوج چلے گئے تھے، لیکن گھر کی مالی حالت نہایت اذیت رساں تھی۔ اس لیے تھوڑا عرصہ وہاں رہے۔ پھر تلاشِ ملازمت کے لیے بھوپال آگئے۔ اس وقت ریاستِ بھوپال کے مدار المہام مولانا جمال الدین صدیقی دہلوی رحمہ اللہ تھے (جو بعد میں نواب صاحب کے سسر ہوئے) بھوپال کی سرکار میں نواب صاحب نے ملازمت کی درخواست دی اور صفر ۱۲۷۲ھ (اکتوبر ۱۸۵۵ء) میں ان کو تیس روپے ماہانہ کی ملازمت مل گئی۔ کچھ مدت بعد حسنِ کارکردگی کی بنا پر عہدۂ میر دبیر پر فائز کیے گئے اور خلعت عطا ہوا، لیکن بعض وجوہ کی بنا پر ۱۶؍ محرم ۱۲۷۳ھ (۱۶؍ ستمبر ۱۸۵۶ء) کو ایک سال بعد ملازمت ختم ہوگئی اور واپس گھر چلے گئے۔ اس زمانے میں ریاستِ بھوپال کی حکمران نواب سکندر بیگم تھیں ۔ انھوں نے سید محمد صدیق حسن رحمہ اللہ کو قنوج سے دوبارہ طلب کیا۔ گھر سے چل پڑے، لیکن راستے میں ایسی رکاوٹیں پیش آئیں کہ بروقت بھوپال نہ پہنچ سکے اور بعض حاسدوں کے کہنے سے ملازمت کا حکم منسوخ کر دیا گیا۔ ۱۹؍ ربیع الاول ۱۲۷۵ھ (۱۸؍ نومبر ۱۸۵۸ء) کو بھوپال سے نکلے اور ٹونک آگئے۔ ریاستِ ٹونک کا حکمران اس وقت نواب محمد وزیر خاں تھا۔ اس نے پچاس روپے ماہانہ تنخواہ پر انھیں ملازم رکھا اور ٹونک میں سکونت اختیار کرنے پر اصرار کیا، لیکن سید محمد صدیق حسن رحمہ اللہ کا دل اس ماحول سے مانوس نہ ہوا اور تھوڑے عرصے بعد چار ماہ کی رخصت کے لیے درخواست دی۔ اتفاق ملاحظہ ہو کہ اسی اثنا میں ریاست بھوپال کی والیہ نواب سکندر بیگم کی طرف سے پھر فرمانِ طلبی صادر ہوا۔ دورِ عروج: یکم صفر ۱۲۷۶ھ (۲۷؍ اگست ۱۸۵۹ء) کو نواب محمد صدیق حسن رحمہ اللہ بھوپال پہنچے۔ بھوپال میں ان کا یہ تیسرا ورود تھا، جسے آخری اور فاتحانہ ورود کہنا چاہیے۔ ۷۵ روپے ماہانہ تنخواہ مقرر ہوئی اور
Flag Counter