Maktaba Wahhabi

538 - 589
بھی اس پر دال ہے۔ عالم تمام ماسوی اللہ کا نام ہے، تو جس طرح اللہ رب العالمین ہے، اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم رحمۃ للعالمین ہیں ۔ وللّٰہ الحمد۔ پیغمبروں کی تعداد کا پتا بعض احادیث سے ملتا ہے، مگر وہ پایہ ثبوت تک نہیں پہنچتی ہیں ۔[1] اس لیے بہتر یہ ہے کہ انبیا کی تعداد میں حصر تعین نہ کیا جائے، کیونکہ ذکر عدد میں یہ احتمال ہو سکتا ہے کہ شاید ان میں کوئی ایسا شخص داخل ہو جائے، جو نبی نہیں ہے یا ہو سکتا ہے کہ کوئی نبی اس گنتی سے باہر رہ جائے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿ مِنْھُمْ مَنْ قَصَصْنَا عَلَیْکَ وَمِنْھُمْ مَنْ لَّمْ نَقْصُصْ﴾ [الغافر: ۷۸] [ان میں سے بعض کا بیان ہم نے کیا اور کچھ کا بیان ہم نے نہیں کیا] جب اللہ ہی نے ہمیں انبیا کی تعداد نہیں بتائی تو اب ہم کس طرح گنتی کر سکتے ہیں ؟ تمام انبیا اللہ کی طرف سے پیغام لائے، وہ سچے تھے اور اپنی امت کے دوست اور خیر خواہ تھے۔ گناہوں سے معصوم تھے اور اپنے عہدۂ نبوت سے کبھی کوئی بر طرف نہیں ہوا۔ نسخ شریعت کا مطلب بر طرفی نہیں ہوتا۔ عصمت کا مفہوم یہ ہے کہ وحی سے پہلے اور وحی کے بعد وہ باتفاق امم صدورِ کفر سے معصوم ہیں ۔ ان سے اتفاقاً اگر کوئی لغزش ہو جاتی ہے تو وہ فی الفور اس پر متنبہ کر دیے جاتے ہیں ۔ قرآن مجید میں انبیا کے جو بعض زلاّت ثابت ہیں ان کی تاویل نہیں ہو سکتی۔ اس سلسلے میں ﴿وَ کَانَ اَمْرُ اللّٰہِ قَدَرًا مَّقْدُوْر﴾ [الأحزاب: ۳۸] سامنے رکھنا بہتر ہو گا۔ اولیاء اللہ سے ولایتِ الٰہی چھن سکتی ہے۔ اگر ان کی وفات ایمان پر ہوئی تو مومن اور ولی ہیں ، ورنہ نہیں ۔ موت کے بعد ان سے استمداد و استعانت، ان کی قبروں سے مدد مانگنا، ان کو سجدہ کرنا اور ان کی نذر ومنت کرنا، قرآن و حدیث کی کسی دلیل سے ثابت نہیں ہے۔ انبیائے کرام: اللہ تعالیٰ نے مخلوق کے پاس رسول بھیجے۔ یہ لوگ اللہ اور مخلوق کے درمیان سفیر ہیں ۔ بعض لوگوں کا یہ قول کہ ان کے بھیجنے کی کیا حاجت ہے؟ ہدایت کے لیے عقل ہی کافی ہے، عقل و نقل دونوں کے خلاف ہے۔ انبیا کا کام یہ ہے کہ لوگوں کو اندھیرے سے نکال کر اجالے میں لائیں ۔ وہ تمام لوگوں سے کئی باتوں میں
Flag Counter