Maktaba Wahhabi

568 - 589
پانچواں باب ایمانیات ایمان کی حقیقت: اہلِ حدیث کہتے ہیں کہ ایمان قول، عمل اور معرفت کا نام ہے۔ ایمان اطاعت سے بڑھتا ہے اور معصیت سے کم ہوتا ہے۔ عمیر بن حبیب رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’جب ہم اللہ کو یاد کر کے حمد و تسبیح کرتے ہیں تو ایمان زیادہ ہو تا ہے اور جب ہم غافل ہو جاتے ہیں اور اللہ کو بھولنے لگتے ہیں تو ایمان ناقص ہو جاتا ہے۔‘‘ سارے سلف کا یہی قول ہے کہ ایمان عمل، قول اور معرفت کا نام ہے۔ جو شخص یہ کہتا ہے کہ ایمان محض اقرار کا نام ہے اور عمل اس میں داخل نہیں ہے، اس پر امام مالک اور امام اوزاعی رحمہما اللہ نے نکیر کی ہے اور فرمایا ہے کہ بے عمل کا ایمان معتبر نہیں ہوتا۔ جن کے طاعات اور حسنات زیادہ ہیں ، ان کا ایمان بھی کامل ہے اور جو طاعت کم کرتا ہے، معصیت زیادہ کرتا ہے، اس کا ایمان ناقص ہے۔ ایمان یہ ہے کہ جو کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کی طرف سے لائے ہیں ، دل سے اس کی تصدیق ہو، زبان سے اس کا اقرار اور اعضاو جوارح سے اس کے موافق عمل ہو۔ بعض اہلِ علم کا یہ قول کہ ایمان میں کمی و زیادتی نہیں ہوتی، کمی و زیادتی عمل میں ہوتی ہے، صحیح نہیں ، بلکہ ظاہر کتا ب اللہ کے خلاف ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿ زَادَتْھُمْ اِیْمَانًا﴾ [الأنفال: ۲] [وہ ان کا ایمان بڑھاتی ہیں ] اس طرح کی اور بہت سی آیتیں ہیں جن کی تاویل بھی نہیں ہو سکتی۔ تاویل کی ضرورت وہاں ہوتی ہے، جہاں ظاہری معنی مراد لینا مشکل ہو، جبکہ ظاہری مراد کے لیے یہاں کوئی چیز مانع نہیں ہے۔ اجمالی ایمان کا رتبہ تفصیلی ایمان کے رتبے سے کم نہیں ہوتا ہے۔ دونوں طرح کے مومن ناجی
Flag Counter