Maktaba Wahhabi

331 - 589
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اجماع سے ثابت ہے اور صحابہ رضی اللہ عنہم کا یہ اجماع، اجماع سکوتی تھا، اس لیے کہ کسی صحابی نے عمر رضی اللہ عنہ کے اس امر کا انکار نہیں کیا تھا کہ آپ نے عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ توسل کیوں کیا؟ توسل کی حقیقت: امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : شیخ عزالدین رحمہ اللہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ توسل کے خاص ہونے کے قائل ہیں ، لیکن میرے نزدیک آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ توسل کے خاص ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے، جس کے دو سبب ہیں ۔ ایک سبب تو اجماعِ صحابہ ہے اور دوسرا یہ کہ اہلِ فضل اور اہلِ علم کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف توسل پکڑنا درحقیقت ان کے اعمال صالحہ کے ساتھ توسل پکڑنا ہے، کیوں کہ ہر فاضل شخص کی فضیلت اور برتری اس کے اعمال اور اس کی خوبیوں سے ہوتی ہے۔ اس کی مثال یوں سمجھو کہ جب کسی نے کہا: ’’اللّٰهم إني أتوسل إلیک بالعالم الفلاني‘‘ [اے اللہ! میں فلاں عالم کے ساتھ تیری طرف وسیلہ پکڑتا ہوں ] تو اس متوسل کا یہ قول اس عالم کے علم و فضل کے اعتبار سے ہوا۔ صحیحین میں تین آدمیوں کا قصہ منقول ہے کہ وہ ایک غار میں بند ہو گئے تھے، ان میں سے ہر آدمی نے اپنے رب سے اپنے نیک عمل کے ساتھ توسل کیا تو غار کے منہ سے وہ پتھر ہٹ گیا تھا۔[1] اگر اعمال فاضلہ کا توسل جائز نہ ہوتا یا ایسا کرنا شرک ہوتا تو اللہ تعالیٰ ان کی دعا قبول کرتا اور نہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم اس قصے کو بیان فرمانے کے بعد خاموشی اختیار کرتے۔ مانعینِ توسل کے دلائل: جو لوگ انبیا و صلحا سے توسل کرنے کو ممنوع قرار دیتے ہیں ، ان کے دلائل مندرجہ ذیل ہیں : 1۔پہلی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے: ﴿مَا نَعْبُدُھُمْ اِِلَّا لِیُقَرِّبُوْنَآ اِِلَی اللّٰہِ زُلْفٰی﴾ [الزمر: ۳] [ہم ان کی عبادت نہیں کرتے مگر اس لیے کہ یہ ہمیں اللہ سے قریب کر دیں ، اچھی طرح قریب کرنا]
Flag Counter