Maktaba Wahhabi

417 - 589
کی عبادت سے مطلب یہ تھا کہ انھیں اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل ہو اور وہ معبود اللہ کے ہاں ان کے سفارشی بن جائیں ۔ امام بکری رحمہ اللہ نے سورت زمر کی آیت کریمہ [۴۴] کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ کفار نے (بتوں کی عبادت سے) صرف حصولِ شفاعت کا قصد و ارادہ کیا تھا اور یہ کفر ہے۔ مختارِ شفاعت اللہ اکیلے کی عبادت: اللہ تعالیٰ نے اس لیے رسول مبعوث کیے اور کتابیں نازل فرمائیں ، تا کہ اکیلے اللہ کی عبادت کی جائے اور لوگوں کو اس بات سے آگاہ کیا جائے کہ شفاعت کا اختیار اللہ کو ہے، اس کی اجازت کے بغیر کوئی شفاعت نہیں کر سکتا اور یہ اجازت اسی کے لیے ہو گی جو خالص موحد ہو گا، مشرک نہیں ہو گا اور اللہ اس سفارشی کے قول وعمل کو پسند کرتا ہو گا، چنانچہ شفاعت مذکورہ بالا قیود سے مقید ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿قُلْ لِّلّٰہِ الشَّفَاعَۃُ جَمِیْعًا﴾ [الزمر: ۴۴] [شفاعت ساری کی ساری اللہ ہی کے اختیار میں ہے] قرآن مجید کی سب سے عظیم آیت، آیت الکرسی میں ہے: ﴿مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہٗٓ اِلَّا بِاِذْنِہٖ﴾ [البقرۃ: ۲۵۵] [کون ہے وہ جو اس کے پاس اس کی اجازت کے بغیر سفارش کرے] ایک جگہ ارشاد فرمایا: ﴿ وَکَمْ مِّنْ مَّلَکٍ فِی السَّمٰوٰتِ لاَ تُغْنِیْ شَفَاعَتُھُمْ شَیْئًا اِِلَّا مِنْم بَعْدِ اَنْ یَّاْذَنَ اللّٰہُ لِمَنْ یَّشَآئُ وَیَرْضٰی﴾ [النجم: ۲۶] [اور آسمانوں میں کتنے ہی فرشتے ہیں کہ ان کی سفارش کچھ کام نہیں آتی مگر اس کے بعد کہ اللہ اجازت دے جس کے لیے چاہے اور (جسے) پسند کرے] نیز فرمایا: ﴿وَ لَا یَشْفَعُوْنَ اِلَّا لِمَنِ ارْتَضٰی﴾ [الأنبیائ: ۲۸] [اور وہ سفارش نہیں کرتے مگر اسی کے لیے جسے وہ پسند کرے] مزید فرمایا:
Flag Counter