Maktaba Wahhabi

76 - 589
دو اتہامات اور ان کی حقیقت نواب سید محمد صدیق حسن خاں رحمہ اللہ کو اپنے وقت میں علم و فضل اور دنیوی ریاست و امارت میں بہت بلند مقام حاصل تھا۔ ایسی بلند مرتبت شخصیت کے محبین اور مخلصین کے ساتھ ساتھ ان کے حاسدین اور مخالفین کا پیدا ہونا بھی ایک ناگزیر امر ہے، چنانچہ ان مخالفین نے نواب صاحب کی شخصیت کو داغ دار کرنے کی خاطر کئی جھوٹ تراشے اور بہت سی تہمتوں کا سہارا لیا، لیکن اﷲ سبحانہ و تعالیٰ نے ہر قسم کے شرور و فتن سے ان کی حفاظت فرمائی اور لوگوں کے قلوب و اذہان میں ان کے لیے محبوبیت ودیعت کی۔ نواب صاحب رحمہ اللہ کو اپنے دور میں جن اتہامات اور الزامات سے دوچار ہونا پڑا، ان میں سے دو اعتراضات ایسے ہیں ، جنھیں آج بھی بعض لوگ اچھالتے اور اپنے اپنے حلقے میں ان کی ترویج و اشاعت کرتے ہیں ، حالاں کہ دیگر الزامات کی طرح ان اتہامات کی حقیقت کو بھی علماے کرام سالہا سال سے طشت ازبام کرتے آئے ہیں ۔ ان میں سے ایک اعتراض یہ ہے کہ نواب صاحب رحمہ اللہ اہلِ حدیث نہیں اور ایک عام سے عالم دین تھے، جن کا علم و فضل میں کوئی خاص مقام نہیں ۔ حیرت ہے کہ نواب صاحب رحمہ اللہ کے دور میں بعض حاسدین نے ان پر یہ الزام عائد کیا تھا کہ وہ وہابی ہیں ، جبکہ آج ان کے مخالفین انھیں یہ الزام دیتے ہیں کہ وہ اہل حدیث نہیں تھے!! نواب صاحب رحمہ اللہ کی وہابیت اور اہل حدیث ہونے کے متعلق اگر ان کے معاصر اور بعد والے اہل حدیث علما کے اقوال نقل کیے جائیں کہ وہ کس طرح انھیں مجددِ دوراں ، مجتہد العصر اور امام وغیرہ کے بلند مرتبت القاب سے یاد کرتے ہیں تو اس کے لیے کئی صفحات درکار ہوں گے، تاہم ذیل میں ہم اس سلسلے میں اپنے وقت کے بہت بڑے عالم، وکیلِ سلفیت شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کی راے گرامی کے ذکر پر اکتفا کرتے ہیں ۔ وہ فرماتے ہیں :
Flag Counter