Maktaba Wahhabi

344 - 589
مسند ابو یعلی میں جید سند کے ساتھ مرفوعاً یوں مروی ہے کہ جو شخص کسی کاہن کے پاس آیا اور پھر اس کے قول کی تصدیق کی تو اس نے محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر اتری ہوئی چیز کا انکار کیا۔[1] امام طبرانی نے بھی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے حسن سند کے ساتھ ایسی ہی روایت ذکر کی ہے۔[2] اب ذرا دیکھیے کہ جس چیز اور علت نے مذکورہ شخص کے حق میں کفر کو واجب کیا ہے، وہ کاہن اور عراف سے متعلق اللہ تعالیٰ کے علم غیب میں شرکت کا اعتقاد ہے، حالانکہ کاہن و عراف کے پاس آنا اکثر اس اعتقاد کے بغیر بھی واقع ہوتا ہے، لیکن بات یہ ہے کہ جو شخص چراہ گاہ کے ارد گرد پھرتا ہے، وہ اس میں جا گرتا ہے۔ ستاروں کی تاثیر پر ایمان ایک کفریہ عقیدہ ہے: سیدنا زید بن خالد رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس عقیدے کو کفر قرار دیا ہے کہ لوگ یہ کہیں فلاں ستارے کی وجہ سے ہم پر بارش برسی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’ایسا کہنے والا اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کرنے والا اور ستاروں کے ساتھ ایمان لانے والا ہے۔‘‘ (رواہ الشیخان بطولہ) [3] حدیث میں مذکورہ اعتقاد پر کفر کا حکم لگانے کی علت یہ ہے کہ اس اعتقاد میں مشارکت کا گمان اور وہم پایا جاتا ہے، پھر اس شخص کے کفر کا کیا پوچھنا جو کسی تکلیف کے پہنچنے پر یہ فریاد اور دعا کرتا ہے: ’’یا اللہ و یا فلان‘‘ کیوں کہ یہ تو دو معبودوں کا عابد اور دو خداؤں کو پکارنے والا ہے۔ پھر جس نے یہ کہا: (( مُطِرْنَا بِنَوئِ کَذَا )) [4] [ہم فلاں ستارے کے ساتھ بارش دیے گئے ہیں ] وہ یہ نہیں کہتا کہ مجھے اس ستارے نے پانی دیا ہے، بلکہ وہ یہ کہتا ہے کہ اس ستارے کے ذریعے سے پانی ملا ہے۔ ان دونوں باتوں میں فرق صاف ظاہر ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی قدسی حدیث میں فرمانِ خداوندی ہے: (( أَنَا أَغْنیٰ الشُّرَکَائِ عَنِ الشِّرْکِ مَنْ عَمِلَ عَمَلًا أَشْرَکَ فِیہِ مَعِيَ غَیْرِيْ تَرَکْتُہُ وَشِرْکَہُ )) (أخرجہ مسلم) [5]
Flag Counter