Maktaba Wahhabi

238 - 589
ہیں جس سے جاہل کا نفس بھی گھبرائے، عارف کا تو کیا ذکر ہے؟ قبر کے پاس کھڑے ہو کر وہ ہر پریشانی اور خوف سے پناہ مانگتے ہیں اور اکثر بازاری لوگ بازاروں میں اُن کا نام بلا نکیر پکارتے ہیں ۔ بہت سے اہلِ شرک اور بے خیر اصحابِ فقر وافلاس یوں کہتے ہیں : اے ابن عباس! آج کے دن اللہ اور آپ ہی پر ہمارا اعتماد و توکل ہے۔ پھر ان سے حاجات روائی چاہتے ہیں ۔ قرآن مجید میں ہے: ﴿ئَ اَتَّخِذُ مِنْ دُوْنِہٖٓ اٰلِھَۃً اِنْ یُّرِدْنِ الرَّحْمٰنُ بِضُرٍّ لاَّ تُغْنِ عَنِّیْ شَفَاعَتُھُمْ شَیْئًا وَّلاَ یُنْقِذُوْنَ﴾ [یٰسٓ: ۲۳] [کیا میں اس کے سوا ایسے معبود بنالوں کہ اگر رحمان میرے بارے میں کسی نقصان کا ارادہ کرے تو ان کی سفارش میرے کسی کام نہ آئے گی اور نہ وہ مجھے بچائیں گے] قبر نبوی پر رکوع وسجود: جناب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم کی قبر شریف کو دیکھو کہ وہاں کیا کیا منکرات وبدعات ہوتی ہیں ۔ کوئی رخسار خاک سے ملتا ہے، کوئی خضوع کے لیے سجود و رکوع کرتا ہے، کسی نے مرقد مبارک کو عید گاہ بنا رکھا ہے، کسی نے وہاں قبولِ دعا کا اعتقاد کر رکھا ہے، حالانکہ حدیث میں اس کے فاعل پر لعنت و زجر اور وعید شدید آئی ہے۔[1] اُس مقام میں یہ کام صرف عوام وجہال ہی نہیں کرتے، بلکہ مدعیانِ علم وفضل بھی ایسے افعال بجا لاتے ہیں ۔ کوئی اپنا قصیدہ لے جا کر پڑھتا ہے اور قبولیت کی نوید لے کر آتا ہے۔ کوئی وہاں دعا والتجا کرتا ہے۔ کوئی صلات وسلام کے واسطے بڑے بڑے لمبے الفاظ پڑھتا ہے۔ یہ امر ناقابل ذکر ہے، بلکہ بیان کرنے سے کہیں زیادہ بڑھ کر ہے۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ قبر شریف کے گرد عورتوں کا ہجوم تھا۔ وہ سب حجاج سے بھیک مانگنے والیاں تھیں ۔ جس جگہ بقیع میں جانا ہوا، وہاں بھی عورتوں کا ایک جھنڈ موجود پایا۔ قبر کی زیارت اس لیے مسنون وماثور ہے کہ دنیا سے جی اُٹھے اور آخرت یاد آئے لیکن وہاں جوان جوان نوخیز دوشیزاؤں اور شادی شدہ عورتوں کا ہجوم ہوتا ہے۔ اکثر حجاج تنہا جاتے ہیں ، اپنے گھر والوں سے ملے انھیں زمانہ بیت چکا ہوتا ہیں ، لہٰذا ان کو دیکھ کر دلوں میں وسوسہ آتا ہے۔ دنیا سے دل کا سرد ہو جانا تو کجا
Flag Counter