Maktaba Wahhabi

207 - 589
سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا مرتدین اور مانعینِ زکات سے سلوک: اس جگہ بعض اہلِ علم کا کلام، جو اہلِ علم نبیوں کے وارث اور چراغ تیر گی تھے، ہم ذکر کرتے ہیں ۔ ان وارثوں میں سے سب سے پہلے صدیقِ امت سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ ہیں ۔ انھوں نے مرتدین کے حق میں فرمایا تھا: ’’لأ قاتلن من فرق بین الصلاۃ والزکاۃ، بل لومنعوني عقالا کانوا یعطونہ رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ و سلم لأقاتلنھم علیہ‘‘[1] [میں نماز و زکات میں فرق کرنے والے کے ساتھ ضرور لڑائی کروں گا، بلکہ اگر مانعین زکات ایک رسی بھی مجھ سے روک لیں کے جو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو ادا کیا کرتے تھے تو میں اس پر ان سے ضرور لڑائی کروں گا] پھر جب ان کے عہدِ خلافت میں بعض عرب قبائل کا فر و مرتد ہو گئے تھے تو انھوں نے ان کے خلاف بھی جنگ کی تھی اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی موجودگی میں ان کے خون کو حلال ٹھہرایا تھا، اس امرِ ارتداد سے متعلق یہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع تھا۔ ان مرتدین کے ارتداد کی بڑی وجہ یہ تھی کہ انھوں نے مسیلمہ کذاب کو نبی مان لیا تھا، حالانکہ اس کے سو ادیگر امور بھی تھے، لیکن اس سب میں سے بڑی بات یہی تھی۔ پھر اس شخص کا کیا حال ہو گا جو غیر اللہ کی عبادت کا قائل ہے یا غیر اللہ کا عبادت گزار اور ان کی الوہیت کا معتقد ہے اور اس غیر کو اس عبادت کا متصف و مستحق جانتا ہے، گواپنی زبان سے وہ یہ نہ کہے؟ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا اس مسئلے پر اتفاق: پھر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اس مسئلے پر صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے ساتھ اتفاق کیا تھا کہ جو شخص نماز و زکات میں فرق کرے، ایک کو مانے اور دوسرے کا انکار کر دے، اس کے ساتھ قتال کرنا واجب ہے، حالانکہ انھوں نے پہلے اس مسئلے میں توقف کیا تھا، لیکن جب دلیل ظاہر ہوئی تو اس کے قائل ہو گئے۔ اہلِ حق کی یہی شان ہوتی ہے کہ وہ دلیل واضح ہونے کے بعد تو قف نہیں کرتے ہیں ۔
Flag Counter