Maktaba Wahhabi

196 - 589
اسے ڈھا دیں گے۔ ہم تو اس بت کی طرف سے بڑے دھوکے اور فتنے میں مبتلا تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے دریافت کیا کہ اس بت کا بڑا فتنہ کیا تھا؟ انھوں نے قحط میں اس بت کی منت ماننے اور جانوروں اور کھیتوں میں اس کی نذر مقرر کرنے کا قصہ بیان کیا۔ انھوں نے اس قصے میں یہ بھی بیان کیا: ’’کنا نتحاکم إلیہ‘‘ [ہم فیصلے کے لیے اس کی طرف رجوع کرتے تھے] [1] امام بغوی رحمہ اللہ نے آیت کریمہ: ﴿ وَ مَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ﴾ [المائدۃ: ۳] [اور جو بت کدوں پر ذبح کیا گیا ہو] کی تفسیر میں کہا ہے کہ ﴿عَلَی النُّصُبِ﴾ میں ﴿عَلَی ﴾ ’’لام‘‘ کے معنی میں ہے اور مطلب آیت کا یہ ہو گا: ’’ما ذبح لأجل النصب‘‘[2] [جو جانور بتوں کے نام پر ذبح کیا جائے] اہلِ شرک سے بحث کرنے کا طریقہ: گذشتہ وضاحت کے باوجود اب بھی کوئی شخص جدل و انکار اور سینہ زوری کا مظاہرہ کرے تو اسے یہ کہنا چاہیے کہ تو ہی بتا کہ اگر یہ شرک نہیں تو پھر شرک کیا چیز ہے؟ اللہ تعالیٰ نے کس چیز کو حرام کیا ہے اور ہمیں کس چیز سے منع کیا ہے؟ وہ گھڑے ہوئے بت وغیرہ معبودات، جن کو مشرک پوجتے تھے، وہ کیا چیز ہیں ؟ اس سے ان سوالوں کا جواب سوائے اس کے بن نہ پائے گا کہ وہ کہے گا کہ وہ غیر اللہ کی عبادت تھی اور غیر اللہ کی وہ عبادت یہی دعا یا ذبح یا کوئی اور عبادت ہے۔ صحیح ترین گواہی وہ ہوتی ہے جس کی شہادت دشمنانِ دین بھی دیں ، جیسے کہا جاتا ہے: ’’الفضل ما شہدت بہ الأعدائ‘‘ [شرف و فضیلت وہ ہے جس کا دشمن بھی اقرار کریں ] یا وہ شخص مذکورہ بالا جواب دینے کے بجائے یہ کہے گا کہ میں نہیں جانتا۔ پھر جب وہ نہیں جانتا تو پھر انکار کیوں کرتا ہے؟ مشرک کو درسِ توحید: اس کے بعد ہم پر لازم ہے کہ ہم اس کے سامنے اس عبادت کو بیان کریں جو اللہ نے ہم پر فرض کی ہے اور ہمیں وہ عبادت کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس نے ہمیں اسی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے اور اللہ ہی اس عبادت کا مستحق ہے۔ پھر ہمیں یہ وضاحت بھی کر دینا چاہیے کہ اگر ہم وہ عبادت اللہ کے لیے کریں گے اور اللہ ہی
Flag Counter