Maktaba Wahhabi

519 - 589
پھاڑنے والا] قرآن میں مذکور ہے، اسی طرح ’’ما کر‘‘ اور ’’بنائ‘‘ سے بھی احتراز لازم ہے، اگرچہ ﴿مَکَرَ اللّٰہُ﴾ [آل عمران: ۵۴] [اللہ نے تدبیر کی] ﴿وَالسَّمَآئَ بَنَیْنٰھَا﴾ [الذاریات: ۴۷] [اور آسمان کو ہم نے بنایا] بھی رب پاک نے فرمایا ہے۔ ان تفصیلات سے معلوم ہوا کہ اللہ و رسول کے حق میں انھیں اسما و صفات کا اطلاق درست ہے جو شریعت میں آچکے ہیں ، جیسے اسماے حسنی۔ اپنی طرف سے اللہ اور رسول کے لیے کوئی نام اورصفت نہیں تراشنا چاہیے، جیسا کہ ’’دلائل الخیرات‘‘[1] میں لفظ قندیل، عرش اللہ وغیرہ آیا ہے، کیونکہ دونوں کے نام توقیفی ہیں ، قیاسی نہیں ، البتہ بعض اہل علم کے نزدیک ایسے اسما و صفات کا اطلاق جائز ہے جن پر علماے امت نے اجماع کر لیا ہے، جیسے لفظ ’’ایزد‘‘ اور ’’خدا‘‘ وغیرہ۔ اسماے حسنی کی تقسیم: حلیمی کا خیال ہے کہ اسماے حسنی کی تقسیم پانچ طرح ہو سکتی ہے اور ان سے پانچ عقیدے ثابت ہوتے ہیں : 1۔اثباتِ باری تعالیٰ، ان اسما میں معطلہ کی تردید ہے، جیسے: حی، باقی، وارث وغیرہ۔ 2۔توحیدِ حق تعالیٰ، ان میں مشرکین کی تردید ہے، جیسے: کافی، علی، قادر وغیرہ۔ 3۔اللہ کی تنزیہ، ان میں مشبہہ کی تردید ہے، جیسے: قدوس، مجید، محیط وغیرہ۔ 4۔یہ اعتقاد کہ ہر موجود اللہ ہی کا ایجاد و اختراع کیا ہوا ہے، اس میں علت و معلول کے قائلین کی تردید ہے، جیسے: خالق، باری مصور، قوی وغیرہ۔ 5۔اس بات کا اعتقاد کہ سارے موجودات و مخترعات کا مد بر و مصرف وہی ایک اللہ ہے۔ وہ جس طرح چاہتا ہے، ان میں تصرف کرتا ہے، جیسے: قیوم، علیم، حکیم وغیرہ۔ ان میں طبائع، تدبیرِ کو اکب اور تدبیر ملائکہ کے قائلین کی تردید ہے۔ امام بیہقی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ اسماے الٰہیہ میں ایسے نام ہیں جو دو معنی بتلاتے ہیں اور دو یا دو سے زیادہ اقسام میں داخل ہوتے ہیں ۔[2]
Flag Counter