Maktaba Wahhabi

546 - 589
’’لن یکون ولیا إلا أن یکون محقا في دیانتہ، ودیانتہ الإقرار۔۔ برسالۃ رسولہ‘‘[1] [انسان ولی صرف اس وقت ہوگا جب اس کی دیانت اور تدین ٹھیک ہو۔ دیانت اقرارِ رسالت سے ملتی ہے] ’’حسن العقیدۃ‘‘ کے الفاظ یہ ہیں : ’’وھم أي الأولیاء المؤمنون، العارفون باللّٰه و صفاتہ، المحسنون في إیمانھم‘‘[2] [اولیا تو مومنین ہیں جنھیں اللہ کی معرفت حاصل ہے۔ وہ صفاتِ الٰہیہ کو اچھی طرح جانتے ہیں اور اپنے ایمان میں بہتر ہیں ] کشف و الہام: الہام، کشف اور خواب اسلام میں حجت ہیں نہ ان سے کوئی دینی حکم ثابت ہو سکتا ہے۔ ان کی حیثیت بس اتنی ہے کہ احکامِ ثابتہ کی تائید کریں ۔ قاضی ثناء اللہ مرحوم نے کہا ہے کہ کشف و الہام اگر آحاد احادیث اور قیاس (شروطِ قیاس متوفر ہونے کی صورت میں ) کے خلاف ہوں تو حدیث اور قیاس کو ترجیح دی جائے گی۔ کشف والہام اور خواب پر غلطی کا حکم لگے گا۔ اس مسئلے پر سارے سلف و خلف کا اجماع ہے، کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا قول قطعی حجت ہوتا ہے، اس کی روایت میں کذب و نسیان کا بڑا کم احتمال ہے اور اولیا کے کشف میں غلطی بہت ہوتی ہے۔ سنت اور نصوصِ کتاب و سنت: اہلِ سنت حقیقت میں کسی خاص مذہب کا نام نہیں ہے۔ جب اہلِ قبلہ مختلف ہو کر کئی فرقے بن گئے تو وہ ضروریاتِ دین پر متفق رہے اور بہت سے مسائل میں ہر ایک نے اپنی رائے و قیاس پر عمل کیا۔ اس وقت ایک گروہ ظاہر کتاب و سنت کو خوب مضبوطی سے پکڑے رہا۔ وہ سلف کے عقائد پر جم گئے اور انھوں نے اصول عقلیہ کی موافقت یا مخالفت کی کچھ پروا نہ کی۔ اگر انھوں نے اتفاقاً معقولی کلام کیا تو مخالف کی تردید اور حصولِ طمانیت کے لیے کیا نہ کہ عقائد میں عام فائدے کے لیے، انھیں کو اہلِ سنت یا اہلِ حدیث یا سلفی کہتے ہیں ۔
Flag Counter