Maktaba Wahhabi

90 - 589
اوّل امر: یہ ہے کہ اصل ان کی عوام الناس سے ہے۔ حالاں کہ یہ امر واقعی نہیں ہے، بلکہ اصل ان کی اخص الخواص میں سے ہے، اس لیے کہ شیخنا المرحوم کا نسب طاہر بواسطہ حضرت قطب العالم مخدوم جہانیاں رحمہ اللہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ تک پہنچتا ہے اور آپ کا خاندان ساداتِ بخارا ہندوستان وغیرہ ممالک میں ایک معزز خاندان ہے۔ یہ تو نسب ہوا، اور باعتبار جاہِ دنیوی آپ کے جد امجد سید اولاد علی خاں المخاطب بہ انور جنگ ریاست حیدر آباد دکن میں بہ جاگیر بیش قرار و منصب معتبر ممتاز تھے۔ آپ کے والد مولانا سید اولاد حسن صاحب قنوجی رحمہ اللہ نے باوجود طلب والی حیدر آباد کے اپنے والد کا منصب و مال و متاع کثیر ترک کیا اور اپنے وطن میں جادۂ زہد و تقویٰ پر مستقیم رہے۔ اپنے شہر میں بہ کمال زہد و قناعت عمر بسر کی۔ سارا شہر آپ کا معتقد تھا۔ بہ اعتبار تقویٰ و تدین کے سب کے سردار تھے۔ اس کی پوری تفصیل اور بھوپال میں آنے کا حال اور روزگار و ترقی مناصب کی کیفیت خود شیخنا المرحوم نے اپنی بعض تصانیف میں خوب تحریر فرمائی ہے۔ دوسرا امر: یہ ہے کہ جب غنا حاصل ہوئی تو علما کو جمع کیا اور ان کو بھیجا۔ پھر ہر طرف سے قلمی کتابیں خریدیں اور ایک بڑا کتب خانہ جمع کیا اور اپنے پاس رہنے والے علما کو تالیف کی تکلیف دی۔ پھر ان کی تصانیف لے کر اپنی طرف منسوب کر لیں ۔ یہ امر بھی غیر واقع ہے، کیوں کہ ان کے غنا سے پہلے چند علماے معمر یہاں ایک مدت سے موجود تھے۔ اور اپنی اپنی خدمتوں پر مقرر تھے، جن کو نہ تالیف و تصنیف کا شوق تھا اور نہ چنداں فارسی و عربی لکھنے کی عادت تھی۔ ہاں بفرطِ شوق نفائس کتب زرِخطیر صرف کر کے یمن وغیرہ سے طلب کیں اور ان سے (علمی) نفع لیا اور اطراف و جوانب سے لوگوں نے کتابیں بھیجیں ۔ زمانہ غنا میں دو چار اہلِ علم بہ تلاشِ روزگار یہاں آئے۔ حسبِ لیاقت ان کو جگہ ملی۔ ان میں سے بعض نے معاصرین کے اعتراضوں کے جواب بھی لکھے، لیکن شیخنا المرحوم نے ہرگز ان کو تکلیف نہیں دی کہ اپنی کتابیں ان سے تالیف کراکے اپنی طرف منسوب کریں ۔ اس لیے کہ اﷲ تعالیٰ نے ان کو جو سرعتِ تحریر عطا فرمائی تھی، وہ شاید اس وقت میں کسی کی ہو، عربی و فارسی خوش محاورہ قلم برداشتہ بلا تکلف لکھتے تھے۔ ان کا مسودہ مثل مبیضہ ہوتا تھا۔ اﷲ پاک نے ان کے وقت میں بہت برکت رکھی
Flag Counter