Maktaba Wahhabi

291 - 589
مذکورہ باب اور موضوع پر کثرت سے احادیث مروی ہیں جو کسی قدر رسالہ ’’در نضید‘‘[1] میں لکھ دی گئی ہیں ۔ یہاں صرف شرک کی بعض وہ اقسام مطلوب و مقصود ہیں جن پر لفظِ شرک کا اطلاق ہوا ہے اور ان میں ایک طرح کا خفا ہے، جس کا مفہوم سمجھنے میں دقت محسوس ہوتی ہے، قطع نظر اس کے کہ وہ شرکِ اکبر ہے یا شرکِ اصغر۔ پس جو شخص شرک کی ان اقسام میں سے کسی قسم میں یا ان سے مشابہ کسی قسم میں براہِ جہل گرفتار ہو گیا ہے تو یقینا وہ شریعت کا علم حاصل کرنے اور اس مسئلے کے متعلق کسی عالم سے سوال کرنے میں کوتاہی کا مرتکب ہونے کی وجہ سے خطا کار ہے۔ لیکن جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے علم سے نوازا ہے اور اسے خدمتِ دین کے لیے چن لیا ہے، اس کے ذمے واجب ہے کہ اللہ نے اپنے بندوں کے لیے جس چیز کو مشروع قرار دیا ہے اور مذکورہ شخص کو اس کا علم نہیں ہے بلکہ اس کا علم مخفی ہے تو اس عالم کو چاہیے کہ وہ جاہل کے سامنے خوب اچھی وضاحت کے ساتھ وہ چیز بیان کر دے، تا کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے بیانِ علم اور عدمِ کتمانِ حق سے متعلق جو عہد لیا تھا، وہ پورا ہو جائے۔ پھر اگر یہ جاہل اس وضاحت و بیان کے بعد گمراہی سے باز آ گیا تو اس عالم نے تعلیم وتبلیغ کا پورا حق ادا کر دیا جو اس کے ذمے واجب تھا اور اس جاہل نے تعلم (سیکھنے اور پڑھنے) کا اپنا حق ادا کر دیا جو اس کے ذمے واجب تھا۔ لیکن اگر اس جاہل نے اس عالم کی بات نہ مانی اور اپنی ضد اور ہٹ دھرمی پر قائم رہا تو اب اس عالم کے ذمے یہ واجب ہے کہ وہ دعوت کے نرمی والے طریقے سے سختی والے طریقے کی طرف رجوع کرے، اگر اس پر بھی وہ جاہل اپنے عمل پر اصرار و استکبار کیے جائے اور اپنی گمراہی و بے راہ روی پر اڑا رہے تو وہ جس کام میں مبتلا ہو گیا ہے اور اس کے حق میں جھگڑا کرتا ہے وہ شرک اکبر ہے جو اپنے مرتکب کو مسلمانوں کے زمرے سے نکال کر مشرکوں کے زمرے میں شامل کر دیتا ہے۔ اب تلوار کے ذریعے سے اس کی گردن اڑانا ہی اس کے حق میں عدل و انصاف والا فیصلہ ہو گا۔ کفر عملی اور کفر جحودی کا حیلہ: اگر کوئی کہے کہ بعض اہلِ علم نے یہ کہا ہے کہ زمانۂ جاہلیت کے مشرکوں کی طرح بتوں کے پاس
Flag Counter