Maktaba Wahhabi

589 - 589
قیاس ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ انھیں کتابوں میں بہت سے اہلِ علم کا عدمِ تقلید کا قول بھی مل جائے گا۔ جب ہم مذہب علما سے ان کی کتابوں میں دو طرح کی رائیں مل سکتی ہیں تو پھر ایسی صورت میں مسئلہ اللہ و رسول پر چھوڑ دینا چاہیے۔ دربارِ الٰہی سے جو حکم صادر ہو اور سنت میں جو راہنمائی ملے، وہی واجب مانیں ۔ ہم نے مسئلۂ تقلید کو کتاب و سنت پر پیش کیا تو فرضیت، وجوب اور استحباب کی بات تو الگ رہی، وہاں سے جواز کی بات تک نہ ملی۔ بعض علماے مقلدین نے تقلید کے سلسلے میں بعض آیات و احادیث سے استدلال کیا ہے، لیکن اس کی بنیاد نافہمی پر ہے۔ ’’اعلام الموقعین‘‘ اور ’’الدین الخالص‘‘ میں اس پر مفصل بحث موجود ہے۔ امام شوکانی رحمہ اللہ نے بھی اس پر بڑی اچھی بحث فرمائی ہے۔ حاصل کلام یہ کہ تقلید کو واجب کہنے والوں کو چھوڑیے، جن لوگوں نے تقلید کو جائز قرار دیا ہے، وہ کوئی دلیل نہ پیش کر سکے جس کا جواب دینے میں دلچسپی لی جائے۔ ہمیں شرائع کو لوگوں کی آرا کی طرف لوٹانے کا حکم نہیں دیا گیا ہے، ہمیں تو کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف لوٹنے کا حکم ملا ہے۔ قرونِ ثلاثہ جو بلاشبہہ اس امت کے بہترین قرون ہیں ، جو چیز ان سے ہو سکی، اگر وہ کسی سے نہ ہو پائی تو اللہ ایسے لوگوں کو کسی لائق نہ بنائے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتابِ عزیز کی بے شمار آیتوں میں مقلدین کی مذمت کی ہے۔ قرآن پاک کے علاوہ جابجا حدیث میں اختلافِ امت کا ذکر ہے اور بدعت سے احتراز کرنے کی ترغیب ہے۔ یہ تقلید بدعت ہے، اس کا سنت سے کوئی تعلق نہیں ۔ اگر سنت ہے تو ہمارے سر آنکھوں پر ہے، لیکن ذرا کا شانۂ نبوت سے اس کی سند تو ملے۔ یہ سارا اختلاف جس کی مذمت آئی ہے، اسی نیک بخت تقلید کی بدولت امت میں پھیلا ہے۔ اسلام میں عظیم تفرقہ اسی بدعتِ تقلید سے رونما ہوا ہے، جس کا انجام یہ ہو اکہ مسلمان اور اسلام دونوں غریب ہو گئے، اب فقط اسلام کا نام باقی رہ گیا ہے۔ مسلماناں درگور و مسلمانی در کتاب۔ إنا للّٰه و إنا إلیہ راجعون۔ مقلد کا ایمان: اس مقلد کا ایمان جس کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے، صحیح ہے۔ اس کی شفاعت ہو سکتی ہے، گو استدلال کے ترک کر دینے سے وہ فاسق ٹھہرتا ہے۔ یہ ابو منصور کا قول ہے۔ ائمہ حدیث نے بھی اسی
Flag Counter