Maktaba Wahhabi

467 - 589
عقیدۂ باطلہ پر اس کی نشوونما ہوتی ہے اور اسے اس کا انکار کرنے والا کوئی شخص بھی دکھائی نہیں دیتا۔ بلکہ جو لوگ عالم، فاضل، قاضی، مفتی، مدرس، والی اور امیر کہلاتے ہیں وہ انھیں دیکھتا ہے کہ وہ خود اس صاحبِ قبر کی تعظیم و تکریم میں لگے رہتے ہیں ، نذر و نیاز لیتے ہیں اور جو جانور اس قبر پر ذبح کیے جاتے ہیں ، ان کو بے تکلف نوش جان فرماتے ہیں ۔ وہ غریب یہ گمان کرتا ہے کہ یہی کام دین اسلام اور ایمان کی چوٹی ہے۔ جو شخص نظر و فکر کی اہلیت رکھتا ہے اور کتاب و سنت کے علم کی روشنی کا شناسا ہے، وہ یہ بات خوب جانتا ہے کہ کسی عالم کا منکر کے وقوع پر سکوت اور خاموشی اختیار کرنا اس منکر کے جواز کی دلیل نہیں ہوتی ہے۔ علما کی خاموشی کوئی دلیل نہیں : اس کی ایک مثال تو یہ ہے کہ یہ ٹیکس جنھیں ’’مجابی‘‘ اور ’’سائرات‘‘ [محصول چنگی] وغیرہ کہتے ہیں ، جن کا حرام ہونا بہ ضرورتِ دین معلوم ہے، تمام ملک اور علاقے اس سے لبریز ہو گئے ہیں ۔ ٹیکس کی یہ وصولی ایک ایسا مانوس امر بن چکا ہے کہ کسی کان کو اس کا انکار سننے کو نہیں ملتا، حتی کہ ٹیکس لینے والوں کا ہاتھ روے زمین کے اشرف خطہ مکہ مکرمہ اور ام القری تک دراز ہو گیا ہے۔ جو شخص حج کے لیے جاتا ہے اس کا مقصد و ارادہ فریضۂ اسلام کو ادا کرنا ہوتا ہے، لیکن اس سے بھی محصول اور ٹیکس لیا جاتا ہے۔ نیز بلادِ حرام میں ہر قسم کا حرام فعل دکھائی دیتا ہے، حالانکہ وہاں کے رہنے والے شرفا، علما اور حکامِ اسلام اس عظیم برائی کا انکار کرنے سے بالکل خاموش ہیں اور اس کے لینے دینے سے کچھ تعرض نہیں کرتے، تو کیا ٹیکس کے جواز پر علما کا یہ سکوت دلیل بن سکتا ہے اور ان کے لینے دینے کو مباح کر سکتا ہے؟ ہر گز نہیں ۔ جس شخص کو تھوڑی سی بھی سمجھ بوجھ ہو، وہ ایسی بات ہر گز نہیں کہے گا۔ دوسری مثال یہ ہے کہ حرم شریف جو دنیا کا سب سے افضل بقاع اور خطہ ہے، اہلِ علم کے اتفاق و اجماع سے وہاں بعض جاہل ملوک چراکسہ نے لوگوں کی عبادت (نماز) کے لیے چار مقام بنا دیے اور ان چار مصلوں نے مسلمانوں کو مختلف ملتوں کی طرح کر دیا۔ یہ ایسی بدعت ہے جس کے ساتھ ابلیس لعین کی آنکھ ٹھنڈی ہوئی اور اس نے مسلمانوں کو شیاطین کے لیے ایک مضحکہ بنا دیا۔ اس کے باوجود لوگوں نے اس پر سکوت کیا۔ آفاقِ عالم کے سب ہی علما وہاں حاضر ہوتے ہیں ، ہر آنکھ والے نے ان مصلوں کو دیکھا ہے اور ہر کان والے نے یہ حال سنا ہے تو یہ سکوت اور
Flag Counter