Maktaba Wahhabi

261 - 589
سُوْئٍ کَثِیْرٍ، مَنْ یَّعْصِیْہِمْ أَکْثَرُ مِمَنْ یُّطِیْعُہُمْ )) (رواہ أحمد والطبراني) [1] [خوشخبری ہے غربا کے لیے۔ ہم نے دریافت کیا کہ غربا کون لوگ ہیں ؟ تو آپ نے فرمایا: کم تعداد والے نیک لوگ ہیں جو بہت زیادہ تعداد والے بُرے لوگوں میں ہوں گے، ان کی نافرمانی کرنے والے ان کی نسبت زیادہ ہوں گے جو ان کی بات مانیں گے] سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کا لفظ مرفوعاً وموقوفاً اس حدیث میں یہ بھی آیا ہے: ’’قِیْلَ: وَمَنِ الْغُرَبَائُ؟‘‘ قَالَ: (( اَلْفَرَّارُوْنَ بِدِیْنِہِمْ یَبْعَثُہُمُ اللّٰہُ تَعَالیٰ مَعَ عِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ علیہ السلام )) [2] [کہا گیا: غربا کون ہیں ؟ فرمایا: جو اپنا دین بچا کر بھاگتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان کو عیسی بن مریمi کے ساتھ اٹھائے گا] غربت اور غربا: ظہورِ غربت کے معنی یہ ہیں کہ خاتم الرسُل صلی اللہ علیہ و سلم سے قبل ساری خلق ضلالت پر تھی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اُن کو دعوت دی تو انھوں نے قبول نہ کی مگر ہر قبیلے سے ایک کے بعد ایک نے، اور جس نے قبول کی تھی وہ اپنی قوم وقبیلہ اور خاندان سے خائف تھے۔ وہ لوگ اُس کو ایذا دیتے، نکالتے، مارتے، عذاب دیتے اور قتل کرتے تو وہ دور داز علاقوں کی طرف بھاگ جاتا، جیسے ہجرتِ حبشہ کے بعد بھاگ کر مدینے میں آنا، لہٰذا جو لوگ ہجرت کے قبل اسلام میں داخل ہوئے وہ غربا ٹھہرے، پھر جب اللہ نے مسلمانوں پر اپنی نعمت تمام کر دی اور دین اسلام کو کامل کیا اور سید المرسلین صلی اللہ علیہ و سلم وفات پا گئے تو وہ لوگ خلافتِ ابوبکر رضی اللہ عنہ میں استقامت و تعاضد اور نصرت پر بدستور مستمر رہے، یہاں تک کہ شیطان نے اپنا مکر مسلمانوں میں پھیلایا، انھیں آپس میں لڑا بھڑا دیا اور شہوات وشبہات کا فتنہ اُن کے درمیان شائع ہو گیا۔ اکثر لوگ کیدِ ابلیس کے دام میں دونوں طرح کے فتنے میں یا ایک طرح کے فتنے میں پھنس گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جس بات کی خبر دی تھی وہ بات بعینہ ظاہر ہوئی۔ صحیح بخاری میں عمرو بن عوف رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے:
Flag Counter