Maktaba Wahhabi

50 - 589
یہ سات نواب ریاست بھوپال کے ابتدائی دور کے حکمران تھے: 1۔دوست محمد خاں ،2۔یار محمد خاں ،3۔فیض محمد خاں ، 4۔حیات محمد خاں ، 5۔غوث محمد خاں ، 6۔وزیر محمد خاں اور 7۔ نظر محمد خاں ۔ ان ساتوں حکمرانوں کے عہد میں بھوپال کو مجمع العلما کی حیثیت حاصل رہی اور علم و ادب نے فروغ پایا۔ نواب قدسیہ بیگم کی حکومت: نواب نظر محمد خاں نے ساڑھے تین سال حکومت کی۔ لوگ اس کے طریقِ حکومت سے بہت خوش تھے۔ لیکن اچانک طپنچہ (پستول) چلنے سے ۱۱؍ نومبر ۱۸۱۹ء کو اس کا انتقال ہوگیا۔ اس نے صرف ۲۸ سال عمر پائی۔ اس کا کوئی بیٹا نہ تھا، صرف ایک بیٹی تھی، جس کا نام سکندر بیگم تھا۔ باپ کی وفات کے وقت اس کی عمر ایک سال تین مہینے تھی، اسے اپنے باپ کا جانشین مقرر کیا گیا، لیکن چوں کہ وہ حکومتی کاروبار نہیں چلا سکتی تھی، اس لیے ایسٹ انڈیا کمپنی کی اجازت سے نواب نظر محمد خاں کی بیوہ قدسیہ بیگم ریاست کی مختار مقرر ہوئیں اور تمام امورِ حکومت انھوں نے اپنے ہاتھ میں لے لیے۔ ان کے عہدِ حکومت میں رعایا کو بڑی سہولتیں حاصل ہوئیں ۔ بہت سے اہلِ علم اور اصحابِ فضیلت کو مختلف مقامات سے بلا کر بھوپال میں آباد کیا گیا اور جگہ جگہ مدارس قائم کیے گئے اور تعلیم عام ہوئی۔ نواب قدسیہ بیگم کا زمانہ ریاستِ بھوپال کے لیے رحمتِ خداوندی کا زمانہ تھا۔ یہ ایک محب وطن اور دین دار حکمران تھیں ۔ مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ میں انھوں نے رباطیں تعمیر کرائیں ۔[1] یعنی حاجیوں اور مسافروں کی رہایش کے لیے مسافر خانے بنوائے۔ نواب سکندر بیگم کی حکومت: ۱۸؍ اپریل ۱۸۳۵ء (۱۸؍ ذو الحجہ ۱۲۵۰ھ) کو نواب جہاں گیر محمد خاں سے سکندر بیگم کی شادی ہوگئی۔ اس کے ساتھ ہی ازروے وصیت جہاں گیر محمد خاں کو ریاستِ بھوپال کا نواب مقرر کیا گیا۔ لیکن ۹؍ دسمبر ۱۸۴۴ء (۲۸؍ ذوالقعدہ ۱۲۶۰ھ) کو عین عالمِ شباب میں جہاں گیر محمد کا انتقال ہوگیا۔ اس کی کوئی نرینہ اولاد نہ تھی، صرف ایک لڑکی تھی، جس کا نام شاہ جہاں بیگم تھا اور اس کی عمر اس وقت سات سال تھی اور وہ حکومت کا نظام چلانے کی اہلیت نہیں رکھتی تھی۔ اس لیے اس کی والدہ سکندر بیگم کو ریاست کی مختار مقرر کیا گیا، لیکن سکندر بیگم نے صرف مختاری پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ ریاست کی مستقل
Flag Counter