Maktaba Wahhabi

176 - 589
اللہ کے ساتھ خاص ہے، اللہ کے سوا کسی کو کسی بھی لحاظ سے عبادت کا استحقاق نہیں ہے۔ عبادت کا لغوی اور شرعی مفہوم: لغت میں عبادت انتہائی درجے کی نیاز مندی اور خاکساری کرنے کا نام ہے اور شرع میں عبادت بندوں کے ان افعال، اقوال اور احوال سے عبارت ہے جو اللہ تعالیٰ کے جلال و عظمت کے ساتھ مختص ہیں ۔ یہ اسم جنس بہت سی انواع پر مشتمل ہے۔ عبودیت کی اصل خضوع، تذلل اور تعبد ہے۔ معلوم ہوا کہ عبادت سے مراد اطاعت ہے اور من جملہ اطاعت کے ایک استعانت، استغاثہ، ذبح، نذر اور حلف وغیرہ ہے، پھر کبھی یہ اطاعت اور عبادت جمع ہو جاتی ہے اور کبھی جدا ہوتی ہے۔ نئے اور پرانے مشرکین میں مشابہت: یہ غلط فہمی نہ رہے کہ قرآن میں تو ان لوگوں کو کافر قرار دے کر ان کی مذمت کی گئی ہے جو بتوں ، پتھروں ، درختوں ، کاہنوں اور شیطانوں کے عبادت گزار تھے، لہٰذا یہ آیات ملائکہ، انبیا، اولیا اور صلحا کی عبادت کرنے والوں پر کس طرح صادق آ سکتی ہیں ؟ یہ سوچ غلط ہے، کیونکہ عبادت کا جو کام اہلِ شرک بتوں کے ساتھ کرتے تھے، جیسے ان سے دعا کرنا، ان کے لیے ذبح کرنا اور ان سے نفع و ضرر کا اعتقاد رکھنا، وہی کام یہ لوگ اولیا وغیرہ کے ساتھ کرتے ہیں ۔ کوئی اولیا کے نام کا شجرہ پڑھتا ہے، کوئی انھیں اللہ کے سامنے سفارشی بنا کر لاتاہے اور کہتا ہے: یا الٰہی! بہ حرمت فلاں فلاں ایسا کر اور کوئی ان کے نام کا جانور ذبح کرتا ہے، جیسے سید احمد کبیر کے نام کی گائے، شیخ سدو کے نام کا بکرا اور زین خان کے نام کا مرغا۔ اسی طرح اہلِ شرک اپنے باطل معبودوں سے جو مرادیں طلب کرتے تھے، وہی مرادیں آج کے لوگ قبور، اموات، پیر، شہید اور بھوت پری سے مانگتے ہیں ۔ اب ترازو کے دو پلڑوں کی طرح یہ دونوں جماعتیں برابر اور ایک دوسرے کے مکمل مشابہ ہیں ۔ لہٰذا جب اصل اور فرع کی علت ایک ہے تو اب حکم میں بھی یہ دونوں برابر ٹھہریں گی۔ خاص طور پر جب قیاس کی مذکورہ نص بھی موجود ہے تو اب کوئی اشکال اور التباس باقی نہ رہا اور کسی تفاوت وفرق کے بغیر صالح اور بدکار آدمی کی عبادت کا حکم ایک ہوا۔ اس کی دلیل مندرجہ ذیل ہے۔
Flag Counter