Maktaba Wahhabi

454 - 589
چوتھی فصل مخلوق سے استغاثہ کرنا اگر کوئی کہے کہ کسی سے فریاد کرنا تو حدیث سے ثابت ہے۔ دیکھو قیامت کے دن لوگ سب سے پہلے ابو البشر آدم علیہ السلام سے استغاثہ کریں گے، پھر نوح علیہ السلام ، پھر موسیٰ علیہ السلام ، پھر عیسیٰ علیہ السلام سے استغاثہ کریں گے، پھر ہر ایک پیغمبر کے معذرت کرنے کے بعد لوگ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئیں گے اور استغاثہ کریں گے۔[1] اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ غیر اللہ سے استغاثہ کرنا کوئی برا کام نہیں ہے۔ میں کہتا ہوں : یہ صریحاً دھوکا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ زندہ مخلوق سے کسی ایسی چیز پر مدد طلب کرنا جس کی وہ قدرت رکھتی ہو، جائز اور درست ہے، اس پر کوئی انکار نہیں ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کے اس قصے میں ، جس میں انھوں نے ایک اسرائیلی اور قبطی کو جھگڑتے ہوئے پایا، ارشاد فرمایا: ﴿ فَاسْتَغَاثَہُ الَّذِیْ مِنْ شِیْعَتِہٖ عَلَی الَّذِیْ مِنْ عَدُوِّہٖ﴾ [القصص: ۱۵] [تو جو اس کی قوم سے تھا اس نے اس سے اس کے خلاف مدد مانگی جو اس کے دشمنوں سے تھا] ہمارے کلام میں اس استغاثے کے متعلق گفتگو ہو رہی ہے جو گور پرست اور پیر پرست اپنے اولیا سے کرتے ہیں اور ان سے وہ چیزیں مانگتے ہیں جو ان کی قدرت میں نہیں ہیں ، جیسے بیمار کی شفا یابی، گمشدہ کی واپسی اور دفعِ بلا وغیرہ، کیوں کہ ان کاموں پر قدرت صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے، کسی مخلوق میں یہ قدرت نہیں ہے۔ بلکہ یہ قبر پرست اور پیر پرست اپنے پیروں اور شہیدوں وغیرہ کے لیے اپنی اولاد میں سے حصہ مقرر کرتے ہیں اور ماں کے پیٹ میں حمل خرید لیتے ہیں ، تا کہ وہ اولاد زندہ رہے، الغرض ایسے ایسے منکرات بجا لاتے ہیں جو پہلے مشرکوں نے بھی سر انجام نہیں دیے۔ انھوں نے تو شیطان کے بھی کان کتر دیے ہیں ۔
Flag Counter