Maktaba Wahhabi

583 - 589
واجب ہے۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی ایک روایت ہے کہ مدہوش کا کفر، کفر مانا جائے گا، لیکن حدیث میں تین آدمیوں کو کسی بھی حکم سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے، ایک بچہ جب تک وہ بالغ نہ ہو جائے گا۔ دوسرا دیوانہ جب تک وہ ہوش میں نہ آئے۔ تیسرا سونے والا جب تک وہ بیدار نہ ہو جائے۔[1] اسی طرح مدہوش دیوانہ عقل کھو بیٹھتا ہے تو اس کا شمار پاگل دیوانوں اور مفقود العقل لوگوں ہی میں ہو گا۔ دعا: اللہ قاضی الحاجات مجیب الدعوات ہے۔ اس کا فرمان ہے: ﴿ اُدْعُوْنِیْٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْ﴾ [المؤمن: ۶۰] [ مجھے پکارو میں تمھاری (دعا) قبول کروں گا] دعا کو اس آیت میں عبادت فرمایا گیا ہے، اس لیے غیر اللہ کو پکارنا شرک ٹھہرا ہے۔ جب تک دعا کسی گناہ اور قطع رحم کے لیے نہ ہو، تب تک مقبول ہوتی ہے۔ یہ مضمون ایک حدیث میں آیا ہے۔[2] کافر کی دعا امورِ دنیا میں مقبول ہو سکتی ہے۔ مظلوم خواہ کافر ہو، اس کی دعا مقبولِ بارگاہِ الٰہی ہوتی ہے۔ ایصالِ ثواب: مُردوں کے لیے زندوں کا دعا کرنا اور ان کے لیے صدقہ کرنا مُردوں کے لیے مفید ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں بہت سی حدیثیں آئی ہیں ۔ نمازِ جنازہ اسی قبیل سے تعلق رکھتی ہے۔ جس کی نمازِ جنازہ میں چالیس موحد نمازی شریک ہوں اور وہ مردے کے لیے دعاے مغفرت کرتے رہیں تو اللہ ان کی سفارش مرنے والے کے حق میں قبول فرماتا ہے۔ پھر جس کے جنازے میں ایسے سو آدمی ہوں تو اس کا کیا پوچھنا؟ سعد بن عبادۃ رضی اللہ عنہ کی والدہ کا انتقال ہو گیا تھا۔ انھوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا: افضل صدقہ کیا ہے؟ فرمایا: پیاسوں کو پانی دینا۔ سعد رضی اللہ عنہ نے اپنی ماں کی طرف سے ایک کنواں کھدوا کر وقف کر دیا۔[3] دوسری حدیث میں آیا ہے کہ دعا آئی بلا کو لوٹا دیتی ہے۔[4] صدقہ اللہ کے غضب کو ختم
Flag Counter