Maktaba Wahhabi

324 - 589
میری حاجت اس تک پہنچا دو، اللہ تعالیٰ اس بندے کا سوال قبول نہیں کرتا۔ اس کی مثال وہ یوں بیان کرتا ہے کہ جس طرح دنیا کے بادشاہوں کا حال ہے کہ وہ واسطے کے بغیر کسی کی عرض قبول نہیں کرتے۔ اسی طرح کبھی مشرک یہ گمان کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بہت دور ہونے کی وجہ سے کسی بندے کی دعا نہیں سنتا تو اس تک بندے کی دعا پہنچانے کا ذریعہ یہ ہے کہ درمیان میں کچھ واسطے ہوں ، جو اللہ تعالیٰ تک یہ دعا پہنچائیں یا وہ یہ گمان کرتا ہے کہ کسی مخلوق کا اللہ تعالیٰ پر حق ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کو اپنے حق کی قسم دے کر کام نکلوا دیتا ہے، جس طرح لوگ بادشاہوں کے پاس اکابر اور امرا کا وسیلہ پکڑتے ہیں ، کیوں کہ وہ یہ جانتے ہیں کہ بادشاہ کے ہاں فلاں امیر اور اس کے وزیر کی بڑی عزت ہے اور بادشاہ اس کی مخالفت نہیں کر سکتا ہے۔ مشرکین کی مذکورہ بالا بد گمانیاں اللہ تعالیٰ کی ربوبیت میں انتہائی درجے کی کمزوری ثابت کرتی ہیں ، لہٰذا حکمتِ الٰہی کا یہ تقاضا ہے کہ وہ شرک کو ہر گز معاف نہ کرے اور مشرک کو ہمیشہ عذاب میں مبتلا رکھے۔ مذکورہ بالا تمہیدی کلمات سے معلوم ہوا کہ انسان کے ایمان اور نجات کا دارو مدار اس پر ہے کہ وہ شرک کو چھوڑ کر توحید اختیار کرے۔ پس جب یہ بات واضح ہو گئی تو صحتِ ایمان کے لیے مراتبِ توحید کو جاننا اور مطالبِ شرک کا معلوم کرنا لازم اور ضروری ٹھہرا۔ رسالہ ’’اخلاص التوحید‘‘ کی تحریر کا مقصد اور اس کی ترتیب: اس رسالے میں توحید کے بعض مقاصد اور شرک کے بعض مدارج لکھے جاتے ہیں ، تاکہ ایک خدا پرست مومن ان دونوں چیزوں کا فرق سمجھ کر اعتقاداً و عملاً انواعِ شرک سے بچے اور توحیدِ باری تعالیٰ سے آراستہ ہو کر اپنے آپ کو رحمت اور مغفرتِ الٰہی کا مستحق بنائے۔ مگر یہ بات اسی وقت تک ممکن ہے جب تک حالتِ نزع میں انسان کے حلق میں جان نہیں پہنچی۔ خدانخواستہ اگر حالتِ شرک میں جان نکل گئی، گو بغیر علم کے جہالت کی بنا پر ہی ہو، تو پھر اس کا کوئی علاج نہیں ہو سکتا ہے۔ یہ رسالہ ایک مقدمہ، چند فصلوں اور خاتمے پر مشتمل ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ کلمہ توحید اور اخلاص پر ہمارا خاتمہ فرمائے۔ اللّٰهم ربنا آمین۔ ٭٭٭
Flag Counter