Maktaba Wahhabi

602 - 589
ساتواں باب امامت و خلافت مسلمانوں کے لیے ایک امام کا ہونا ضروری ہے۔ یہ امام حدود کو قائم کرے گا، سرحد کی نگرانی کرے گا، اسلامی لشکر فراہم کرے گا، امنِ عامہ برقرار رکھے گا، جمعہ و اعیاد قائم کرے گا، مسلم رعایا کے جھگڑے چکائے گا، حقوق پر فراہم شہادات کو قبول کرے گا، یتیموں اور بیواؤں کی کفالت کرے گا اور غنائم کو تقسیم کرے گا۔ یہ امام مخفی و منتظر نہ ہو گا، جیسا کہ شیعوں کا عقیدہ ہے، بلکہ اسے علی الاعلان اپنی امامت پر کار بند ہونا پڑے گا۔ امام کا قریشی ہونا شرط ہے، غیر قریشی کو امام نہیں بنایا جا سکتا۔ قریشیت کے ساتھ ہاشمیت کی شرط ہے نہ یہ ضروری ہے کہ امام اولادِ علی و فاطمہw میں سے ہو۔ امام کے لیے عصمت کی شرط ہے نہ اسے سارے اہلِ زمانہ سے افضل واکمل ہونا ضروری ہے۔ افضل کے ہوتے مفضول کی امامت بھی جائز ہے۔ امام کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اہلِ ولایت مطلقہ کاملہ سے ہو، احکام کا نفاذ کر سکتا ہو اور حدود کی حفاظت اور دارالاسلام کی حمایت کر سکتا ہو، مظلوم کو ظالم سے حق دلا سکتا ہو اور سیاست شرعیہ چلا سکتا ہو۔ اگر یہ تمام ذمے داریاں وہ نبھا سکتا ہو تو اس کو کسی فسق یا ظلم کے ارتکاب کے سبب معزول نہیں کیا جا سکتا، بلکہ وہ بد ستور امام بنا رہے گا۔ امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک فسق سے امام کو امامت سے بر طرف کیا جا سکتا ہے، لیکن صحیح قول وہی ہے جو پہلے بیان کیاگیا۔ امام کا تعین مخلوق پر واجب ہے، اللہ پر نہیں ۔ اہلِ سنت اور عام معتزلہ کا یہی خیال ہے۔ اس کی دلیل یہ فرمانِ نبوت ہے: (( مَنْ مَاتَ بِغَیْرِ إِمَامٍ مَاتَ مِیْتَۃً جَاھِلِیَّۃً ))[1] [ جو امام کے بغیر مر گیا اس کی موت جاہلیت کی موت ہو گی]
Flag Counter