Maktaba Wahhabi

333 - 589
[تیرے اختیار میں اس معاملے سے کچھ بھی نہیں ] حالانکہ اس آیت میں تو اپنے لیے اور غیر کے لیے نفع وضرر کی عدمِ ملکیت کا ذکر ہے، توسل کی ممانعت کا اس میں کوئی تذکرہ نہیں ہے۔ جب کہ اس کے برعکس یہ بات معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو مقامِ محمود یعنی شفاعت عظمیٰ کا مقام و منصب عطا کیا ہے اور مخلوق کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے اس مقام کا سوال کریں اور اللہ تعالیٰ سے اس کے طالب بنیں ۔ خود اللہ تعالیٰ قیامت کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے فرمائے گا: (( سَلْ تُعْطَہٗ وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ )) [1] [(اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !) مانگیے! آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو دیا جائے گا۔ شفاعت کیجیے! آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی شفاعت قبول کی جائے گی] ہاں ! شفاعت کے متعلق قرآن مجید میں یہ شرط بیان ہوئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر شفاعت نہیں ہو گی اور شفاعت بھی صرف اسی کی ہو گی جسے اللہ تعالیٰ پسند کرے گا۔ مانعینِ توسل کی پانچویں دلیل اور اس کا جواب: مانعینِ توسل ایک دلیل یہ بھی دیا کرتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی: ﴿وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ﴾ [الشعرآئ: ۲۱۴] [اور اپنے سب سے قریبی رشتے داروں کو ڈرا] تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک ایک کو پکار کر یہ کہا: (( لَا أَمْلِکُ لَکَ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا )) [2] [میں تمھارے لیے کسی چیز (کے نفع و نقصان) کا مالک نہیں ہوں ] اس حدیث میں صرف اتنی صراحت ہے کہ اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ ضرر کا ارادہ کرے گا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اسے نفع نہیں پہنچا سکتے اور جس کے ساتھ اللہ نفع کا قصد کر لے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم اسے ضرر نہیں دے سکتے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم جب اپنے رشتے داروں کے نفع و نقصان کے مالک نہیں ہیں تو
Flag Counter