Maktaba Wahhabi

362 - 589
اپنے اسلام کی خبر دی تھی۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو اس کے قتل پر ڈانٹا تھا۔ رہا وہ شخص جس نے یہ کلمۂ توحید پڑھا اور پھر اس توحید کے خلاف افعال و اعمال بجا لایا، جیسے آج کے گور پرستوں کا اعتقاد ہے، تو پھر اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کی حالت سے اس کی حکایتِ زبان اور اقرارِ توحید کے خلاف عمل ظاہر ہوا۔ صرف کلمہ نہیں ، اعمال بھی ضروری ہیں : اگر محض کلمہ توحید پڑھنے سے اسلام میں دخول اور کفر سے خروج کا اعتبار ہوتا، کلمہ پڑھنے والا خواہ توحید کے موافق کام کرے یا اس کے خلاف، تویہودیوں اور نصرانیوں کو بھی اس کلمہ توحید کا پڑھنا، ان کے اس قول کے باوجود کہ عزیر و مسیح اللہ کے بیٹے ہیں ، فائدہ دیتا، اسی طرح یہ کلمہ منافقین کے بھی کام آتا، حالانکہ وہ دین کو جھٹلانے والے ہیں اور زبان سے وہ بات کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہے حالانکہ یہ تینوں گروہ کلمہ توحید پڑھنے والے ہیں ، بلکہ اس کلمہ توحید کا پڑھنا خوارج کے لیے بھی کار آمد نہ ہوا، حالانکہ وہ تمام لوگوں میں اکمل التوحید ہیں اور سب سے زیادہ نیک اعمال کرتے ہیں ، اس کے باوجود وہ (( کلاب النار )) [1] [دوزخ کے کتے] ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں ان کو قتل کرنے کا حکم دیا ہے، حالانکہ وہ مشرک ہیں نہ ’’لا الہ الا اللہ‘‘ کے مفہوم کی خلاف ورزی کرتے ہیں ، بلکہ بہت مخلص موحد ہیں ۔ مانعینِ زکات کی بھی یہی صورت حال ہے کہ وہ موحد اور غیر مشرک ہیں ، لیکن انھوں نے ارکانِ اسلام میں سے ایک رکن کو ترک کر دیا، لہٰذا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ان سے قتال پر اجماع کیا، بلکہ صحیح اور متواتر دلیل اس پر دلالت کرتی ہے۔ فرمایا: (( أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ۔۔۔الخ )) [2] لہٰذا اسلام کے ارکان، ارکانِ خمسہ کے تارک کا خون محفوظ ہے نہ اس کا مال، اس سے بڑھ کر وہ شخص ہے جو معنی توحید کا تارک ہے اور اس کے افعال کلمہ طیبہ کے معنی کے مخالف ہیں ۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ گور پرست اور پیر پرست زندوں اور مردوں کے حق میں اپنے اعتقاد کو شرک نہیں جانتے ہیں ، اگر ان میں سے کسی کو تلوار کی نوک پر بھی رکھا جائے، تب بھی وہ اس بات کا ہرگز اقرار نہیں کرے گا کہ وہ مشرک ہے یا شرک کا کام کرتا ہے، بلکہ اگر اسے تھوڑا سا بھی علم ہو جائے
Flag Counter