Maktaba Wahhabi

64 - 589
کا خطاب حکومتِ برطانیہ نے بحال کر دیا تھا۔[1] حلیہ: یہاں نواب صاحب کے حلیے، لباس اور اخلاق و عادات کے متعلق چند امور کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے۔ ان کا حلیہ یہ تھا: مناسب قد و قامت، سرخ و سفید رنگ، بھرا ہوا خوب صورت چہرہ، کشادہ پیشانی، روشن آنکھیں ، چوڑے شانے، جاذبِ نظر ناک نقشہ، با رعب شخصیت کے مالک۔ مردانہ وجاہت کے دل کش پیکر۔ رنگ اس قدر گورا چٹا کہ پہلی نظر میں دیکھنے والے کو انگریز معلوم ہوتے تھے۔ چنانچہ ۱۸۵۷ء کے شدید ہنگامے کے زمانے میں جب وہ سخت مالی پریشانی میں مبتلا تھے، ایک صاحب کے گھر بلگرام میں مقیم تھے اور ہندوستان کے لوگ انگریزوں کے خلاف بغاوت میں اتنا آگے نکل گئے تھے کہ انھیں دیکھنا گوارا نہ کرتے تھے۔ ایک دن نواب صاحب رحمہ اللہ دریاے گنگا کے کنارے غسل کر رہے تھے کہ ادھر سے چند ہندوستانیوں کا گزر ہوا۔ انھوں نے انگریز سمجھ کر بندوق کی نالی ان کی طرف کر دی۔ اچانک ایک کسان نے دیکھ لیا۔ وہ اونچی آواز میں پکارا: دیکھنا گولی نہ چلانا۔ یہ بڑے حضرت صاحب کے صاحب زادے ہیں ، میں انھیں برسوں سے جانتا ہوں ۔ یہ سن کر وہ لوگ آگے بڑھ گئے اور نواب صاحب رحمہ اللہ کی جان بچ گئی۔ یوں سمجھیے کہ زندگی دوبارہ ملی۔ اس کے بعد انھوں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم کی نعت کے طور پر ’’القصیدۃ العنبریۃ في مدح خیر البریۃ‘‘ کے عنوان سے عربی میں ایک طویل قصیدہ قلم بند فرمایا اور اس قصیدے نے ان کی عربی تصانیف میں نمایاں جگہ پائی۔ لباس اور عادات و اطوار: اب نواب صاحب کے لباس اور عادات و اطوار کے بارے میں ان کے بڑے صاحب زادے نواب علی حسن خاں رحمہما اللہ کی زبانی سنیے، جن کی وضاحت انھوں نے اپنی تصنیف ’’مآثر صدیقی‘‘ کے حصہ چہارم میں کی ہے: لباس سادہ اور سفید بہت پسند تھا۔ کبھی رواج کے مطابق مختلف الوان اور نیم رنگ لباس بھی
Flag Counter