Maktaba Wahhabi

202 - 589
توحید کا ساتواں درجہ قرآن و حدیث کے احکام سب لوگوں کے لیے یکساں ہیں : اگر کوئی یہ کہے کہ مذکورہ آیات تو ان مشرکین کے حق میں نازل ہوئی ہیں جوبت پرست تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے جنگ کرتے تھے، پھر کسی غیر پر ان کا اطلاق کیسے درست ہو گا؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ پہلے اور بعد والے مشرکین کو جمع کرنے والا امر شرک موجود ہے تو بلا فرق دونوں کا حکم ایک ہی ہو گا۔ کیونکہ دونوں کو جدا کرنے والی کوئی چیز موجود نہیں ہے، البتہ انھیں اکٹھا کرنے والی چیز پائی جاتی ہے۔ اصولِ فقہ میں لکھا ہوا ہے کہ خصوصِ سبب کا نہیں عمومِ لفظ کا اعتبار ہوتا ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’میرا حکم ایک شخص پر ویسا ہی ہے، جیسا کہ میرا حکم جماعت پر ہے۔‘‘[1] ورنہ تو یہ بات لازم آئے گی کہ جو حکم کسی مخصوص سبب کی بنا پر گذشتہ قصے میں نازل ہوا ہے، وہ متعدی نہ ہو، حالانکہ یہ صریحاً باطل ہے اور اس سے احکام شرعیہ کو تمام لوگوں پر جاری ہونے سے روکنے کی خرابی لازم آتی ہے۔ آیاتِ حدود و جنایات اور مواریث و دیات ماضی کے قضایا میں اتری ہیں اور جن لوگوں کے حق میں وہ نازل ہوئی تھیں ، وہ لوگ تو گزر گئے، حالانکہ ان آیات کا حکم قیامت تک عام ہے اور عام اپنے سبب پر مقصور نہیں ہوتا ہے۔ خطاباتِ شرع کا معدوم مکلف کے ساتھ تعلق، تعلقِ معنوی ہے۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے ایسے ہی موقع پر یہ بات کہی ہے: ’’ھذا نزل علی بني إسرائیل، و إنہ علینا مثلھم، وما أشبہ اللیلۃ بالبارحۃ‘‘ [یہ حکم نازل تو بنی اسرائیل پر ہوا تھا لیکن ان کی طرح ہمیں بھی یہی حکم ہے، آج کی رات گذشتہ رات کے ساتھ کس قدر مشابہ ہو گئی ہے] بعض علماے سلف نے کہا ہے:
Flag Counter