Maktaba Wahhabi

75 - 589
بھوپال کی موجودہ حالت: ڈاکٹر رضیہ حامد کی کتاب ’’نواب صدیق حسن خاں ‘‘ سے پتا چلتا ہے کہ اب بھوپال کو اہلِ علم کے خوب صورت مرکز کی حیثیت حاصل ہے اور وہاں متعدد لائبریریاں قائم ہیں ۔ لڑکوں اور لڑکیوں کی دینی تعلیم کے لیے مدرسے جاری ہیں اور مسجدیں نمازیوں اور مصلحین و متعلمین سے با رونق ہیں ۔ آخری گزارش: نواب صاحب برصغیر کے بہت بڑے مفسر، بہت بڑے محدث، بہت بڑے مصنف، بہت بڑے محقق، بہت بڑے مورخ، بہت بڑے ہم دردِ خلائق اور بہت بڑے مبلغ اسلام تھے۔ ان کے متعلق بہت کچھ لکھنا چاہیے اور بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے۔ اس مضمون میں ان کی خدماتِ گوناگوں کے بعض گوشوں کی نشان دہی کی گئی ہے۔ اس کی روشنی میں سلسلۂ تحریر کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے اور ان شاء اﷲ کوئی اہلِ علم آگے بڑھانے کی کوشش کریں گے۔ میں اپنی گزارشات محترمہ ڈاکٹر رضیہ حامد کے ان الفاظ پر ختم کرتا ہوں ۔ ’’نواب صدیق حسن خاں کے علمی کارناموں کی داستان اس یقین کے ساتھ ختم کی جاتی ہے کہ ان کے کارناموں کی صداے بازگشت اس وقت تک سنی جا تی رہے گی، جب تک دنیا کے کسی گوشے میں بھی حدیث پاک اور سنتِ نبویہ کا پیغام باقی ہے۔‘‘ نواب صاحب رحمہ اللہ اپنے وقت کے مانے ہوئے انشا پرداز، محدث اور زبردست صاحبِ قلم اور صاحبِ نظر تھے۔ ان کی حیات ایک فراخ حوصلہ عالم، جوہر شناس بزرگ، بیدار مغز انسان اور باکمال صاحبِ قلم کی حیات ہے۔ ان کی شخصیت ایک دانش مند مفکر اور محقق عالم کے ساتھ ساتھ ایک حقیقت شناس اور منتظم حاکم کی شخصیت ہے۔ نواب صاحب کی ذاتِ باصفات میں اصابتِ فکر، دور اندیشی، دور بینی اور معاملہ فہمی نیز دین میں پختگی بہ درجۂ اتم موجود تھی۔ علومِ دین کے فروغ میں ان کے کارہاے نمایاں علماے سلف کی یادتازہ کرتے ہیں ۔ انھوں نے حضرت شاہ ولی اﷲ رحمہ اللہ کے طرزِ فکر کو ہندوستان سے متجاوز کر کے دنیا کے دور دراز گوشوں تک پہنچایا اور عرب فضلا سے بھرپور داد و تحسین حاصل کی۔[1]
Flag Counter