Maktaba Wahhabi

578 - 589
روح: روح محدث ہے، اسے ابدیت حاصل نہیں ہے۔ تمام صحابہ و تابعین کا یہی اعتقاد تھا۔ ان کے بعد ایک ایسا فرقہ نمودار ہوا، جس نے خیال ظاہر کیا کہ روح کو ابدیت حاصل ہے۔ تمام اہلِ سنت کا اس پر اتفاق ہے کہ روح مخلوق ہے۔ بعض محدثین نے اس پر اجماع نقل کیا ہے۔ کسی کا خیال ہے روح مر جاتی ہے، کسی نے کہا ہے نہ مرنا ٹھیک ہے۔ احادیث سے یہی معلوم ہوتا ہے، کیونکہ اگر مر جاتی تو بدن سے مفارقت کے بعد حشر تک کیسے عذاب یا نعمت پاتی؟ صحیح بات یہ ہے کہ روح کا حال اللہ کے سوا کسی کو معلوم نہیں ۔ فرمایا: ﴿ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ وَ مَآ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلًا﴾ [بني إسرائیل: ۸۵] [کہہ دو! روح میرے رب کے حکم سے ہے، تمھیں تو بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے] تکلیف ما لایطاق (طاقت سے زیادہ بوجھ ڈالنا): حنفیہ اور معتزلہ کے نزدیک تکلیف مالایطاق جائز نہیں ہے۔ اندھے سے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ دیکھ اور لنگڑے کو چلنے کا حکم نہیں دیا جا سکتا۔ شافعیہ اور اشاعرہ کے نزدیک یہ تکلیف جائز ہے۔ اگر جائز نہ ہوتی تو یہ سوال کیوں اٹھتا، جو اس فرمانِ باری تعالیٰ میں مذکور ہے: ﴿ رَبَّنَا وَ لَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَۃَ لَنَا بِہٖ﴾ [البقرۃ: ۲۸۶] [اے ہمارے رب! تو ہمیں ہماری طاقت سے زیادہ بوجھل نہ بنا] حق بات یہ ہے کہ تکلیف مالا یطاق (طاقت سے زیادہ ذمے دار بنانا) جائز نہیں ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا﴾ [البقرۃ: ۲۸۶] [اللہ کسی کو طاقت سے زیادہ ذمے دار نہیں بناتا] پہلی آیت میں آفات سے پناہ مانگی گئی ہے۔ اس سے تکلیف مالایطاق مراد نہیں لے سکتے۔ دعا مانگنا تکلیف کے منافی نہیں ہے۔ یہ ویسی ہی بات ہے، جیسے حدیث میں بہت سی چیزوں سے پناہ مانگی گئی ہے، حالانکہ ان میں ایسی چیزیں بھی ہیں جن پر صبر کرنے سے جنت کا وعدہ ہے۔
Flag Counter