Maktaba Wahhabi

579 - 589
تکفیرِ اہلِ قبلہ: اہلِ سنت کسی اہلِ قبلہ کی تکفیر نہیں کرتے۔ اہلِ قبلہ سے مراد وہ لوگ ہیں جن کا ضروریاتِ دین پر اتفاق ہے، مثلاً عالم کو حادث جانتے ہیں ، اجساد کا حشر مانتے ہیں ، اللہ کے لیے سبھی کلیات وجزئیات کا علم جانتے ہیں ، اسی طرح باقی مسائلِ مہماتِ اسلامیہ کے معتقدہیں ، کیونکہ جو شخص تمام عمر اطاعت و عبادت کرتا ہے، مگر قِدم عالم اور نفیِ حشر کا قائل ہے، اللہ کے لیے علم تسلیم نہیں کرتا تو اس کا شمار اہلِ قبلہ میں نہیں ہو گا۔ عدمِ تکفیر سے یہ مراد ہے کہ جب تک کفر یا ارتداد کی علامت نہ پائی جائے یا موجباتِ کفر میں سے کوئی شے صادر نہ ہو، تب تک اس کی تکفیر نہیں کی جائے گی، مثلاً صانع، عالم، قدیر، علیم، مختار وغیرہ کا انکار اس طرح کرنا جس طرح دہریہ کرتے ہیں یا بت پرستوں کی طرح غیر اللہ کی عبادت کرنا یا فلاسفہ کی طرح معاد کا منکر ہونا؛ یہ سب موجباتِ تکفیر میں داخل ہیں ، اسی طرح نبی کا انکار اور تمام مرویاتِ وسائلِ شریعت کا انکار بھی موجباتِ تکفیر میں داخل ہے، ان کے سوا جو کچھ ہے، ان کا قائل مبتدع او رگمراہ ہے، اسے کافر نہیں کہہ سکتے۔ حدیث میں کسی کو کافر کہنے سے منع فرمایا گیا ہے۔[1] محدثین محققین کا یہی عقیدہ ہے کہ صاحبِ تاویل کی تکفیر نہیں کی جائے گی، کیونکہ وہ کسی آیت یا حدیث سے استدلال کرتا ہے، وہ صرف رائے اور قیاس استعمال نہیں کرتا۔ اس کی غلطی صرف اتنی ہے کہ اس نے آیت یا حدیث کے وہ معنی نہیں سمجھے جو حقیقت میں ہیں ، مگر اپنے خیال میں مطلب صحیح نکالتا ہے، گو نفس الامر میں وہ معنی غلط ہیں ۔ بہر حال اس کا ارادہ یہی ہوتا ہے کہ جو اس آیت یا سنت کا مطلب ہے، میں وہی کہتاہوں ، اس لیے اسے صرف مبتدع کہا جا سکتا ہے، کافر نہیں ، جیسے زیدیہ حنفیہ وغیرہ کا مذہب ہے۔ وہ لوگ جن کے صریح خیالات ہیں جیسے روافض اور خوارج وغیرہ تو ان کے کفر میں کوئی شک و شبہہ نہیں ، خوارج کو کلابِ نار فرمایا گیا ہے[2] اور روافض کو بھی جہنمی ٹھہرایاگیا ہے۔ جو بدعت حدِ کفر تک نہیں پہنچی، اس کے فاعل کو بھی کافر نہیں کہنا چاہیے۔ جس کا قدم دائرہ احداث سے باہر ہو گیا ہے اور کفر کی سرحد تک اس کی رسائی ہو گئی ہے، وہ کافر ہے۔ کافر مشرک اور مبتدع فاسق
Flag Counter