Maktaba Wahhabi

74 - 589
تالیفات میں لکھا ہے، وہ درحقیقت علماے سابقین اور ائمہ امت کا علم ہے، نہ کہ میرا علم و اجتہاد ہے۔‘‘ [1] اصل مقصد زندگی: کتاب و سنت کی اشاعت اور بدعات و محدثات کی بیخ کنی نواب محمد صدیق حسن خاں کی زندگی کا اصل مقصد تھا۔ چنانچہ ’’إبقاء المنن‘‘ (ص: ۵۴) میں تحریر فرماتے ہیں : ’’میرا اگر بس چلتا تو میں یہ نیت رکھتا ہوں کہ کسی کتاب کو جو مخالف کتاب اﷲ ہوتی، روے زمین پر باقی رکھتا، نہ کسی بدعت کو جو متصادم سنت ہوتی، باقی چھوڑتا اور نہ کسی فن کو جہاراً اولیلاً و نہاراً عمل میں آنے دیتا اور اگر ایسا وقوع میں آتا تو حدودِ شرع سے اس کا تدارک کرتا۔‘‘ چند واردین بھوپال علماے کرام: پہلے بتایا جا چکا ہے کہ نواب صاحب نے اپنے عہد کے بہت سے اہلِ علم کو بھوپال آنے کی دعوت دی اور وہ وہاں تشریف لائے اور متعدد اصحابِ فضل بھوپال کی علمی فضا کا شہرہ سن کر خود ہی وہاں تشریف لے گئے اور انھوں نے اس ریاست میں بے پناہ خدمات سر انجام دیں ۔ ان حضرات کی طویل فہرست میں چند بزرگانِ ذی مکرمت کے اسماے گرامی یہ ہیں : شیخ حسین محسن یمانی (متوفی ۱۳۲۷ھ) مولانا سید ذوالفقار احمد نقوی (۱۳۴۰ھ) شیخ محمد بن حسین انصاری یمانی (متوفی ۱۳۴۴ھ) مولانا محمد بشیر سہسوانی (متوفی ۱۳۲۳ھ) سید حسین شاہ واصف بخاری (متوفی ۱۲۸۵ھ) مولانا عبدالباری سہسوانی (متوفی ۱۳۰۳ھ) مولوی صابر حسین صبا سہسوانی (متوفی ۱۳۱۳ھ) مولانا یوسف علی لکھنوی (متوفی ۱۳۰۹ھ) مولانا سلامت اﷲ جیراج پوری (متوفی ۳۰ ربیع الاول ۱۳۲۲ھ مطابق ۱۵؍ جون ۱۹۰۴ء) ان حضرات میں سے صرف مولانا محمد بشیر سہسوانی نے جمادی الاخریٰ ۱۳۲۳ھ کو دہلی میں وفات پائی۔ باقی تمام حضرات بھوپال میں فوت ہوئے اور وہیں دفن کیے گئے۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سے حضرات واردِ بھوپال ہوئے اور پھر وہیں سکونت پذیر ہوگئے۔
Flag Counter