Maktaba Wahhabi

531 - 589
تیسرا باب بندوں کے اعمال اللہ کے پیدا کردہ ہیں بندوں کے جتنے کام ہیں ، سب اللہ کے پیدا کیے ہوئے ہیں ۔ ممکن کے اندر اتنی قدرت نہیں کہ وہ ممکن کی تخلیق کرسکے۔ سارے ممکنات عرض، جوہر اور افعالِ عباد؛ سبھی اللہ کی مخلوق ہیں ۔ معاملہ صرف اتنا ہے کہ اللہ نے اسباب و وسائط کو اپنے فعل کے درمیان پردہ بنا دیا ہے، البتہ انسانوں کے اختیاری فعل اور جمادات کی حرکت میں فرق ہے۔ اللہ نے اپنے بندوں کو قدرت اور ارادے سے نوازا ہے۔ اس کی یہ سنتِ جاریہ ہے کہ جب بندہ کسی کام کا ارادہ کرتا ہے تو اللہ اس کام کو وجود بخش دیتا ہے۔ اسی ارادے اور قدرت کی بنیاد پر بندے کو ’’کاسب‘‘ کہتے ہیں ۔ اسی بنیاد پر مدح و ذم اور ثواب وعقاب مرتب ہوتا ہے۔ حیوان وجماد کی حرکت اور فعل کے درمیان فرق نہ کرنا کفر اور بداہتِ عقل اور شریعت کے خلاف ہے۔ مضروب پر ضرب کے بعد جو درد اور شیشے میں شکستگی کے بعد جو کسر پائی جاتی ہے، یہ مخلوقِ رب ہے۔ بندے کو اللہ کے کام میں کچھ بھی دخل نہیں ہے، بہ طریق تخلیق نہ بہ طریق اکتساب۔ اسی طرح غیر اللہ کو کسی چیز کا خالق جاننا کفر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قدریہ کو حدیث شریف میں امت اسلامیہ کا مجوسی قرار دیا گیا ہے،[1] اگرچہ یہ حدیث ضعیف ہے، مگر اس جگہ قدریہ سے مراد معتزلہ ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ بندہ اپنے کاروبار میں مستقل قدرت رکھتا ہے، اس کے افعال خود اس کی مخلوق ہیں ۔ اور حیوان کے افعال میں اللہ تعالیٰ کا کچھ دخل نہیں ہے۔ چونکہ یہ لوگ قدر کے منکر ہیں ، اس لیے قدریہ کہلاتے ہیں ۔ آج کل کے نصاری اور نیچریوں کا بھی یہی خیال ہے۔ یہ اعتقاد قرآن شریف کے بالکل خلاف ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے: ﴿ وَاللّٰہُ خَلَقَکُمْ وَمَا تَعْمَلُوْنَ﴾ [الصافات :۹۶] [اللہ نے تمھیں پیدا کیا اور تمھارے اعمال کو بھی] مجوس کہتے ہیں کہ پارسیوں کے دو خدا ہیں ۔ ایک خیر کا خدا جس کو وہ ’’یزدان‘‘ کہتے ہیں ۔ دوسرا شر
Flag Counter