Maktaba Wahhabi

339 - 589
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے کہ جس نے غیر اللہ کی قسم کھائی تو اس نے شرک کا ارتکاب کیا۔ [1] (رواہ الترمذي) یہ جملہ احادیث دواوینِ اسلام [کتبِ احادیث] میں موجود ہیں ۔ ان احادیث سے معلوم ہوا کہ غیر اللہ کی قسم کھانا انسان کو اسلام سے خارج کر دیتا ہے، اس لیے کہ کسی چیز کی قسم اٹھانے میں اس کی تعظیم کا تصور پایا جاتا ہے۔ غیر اللہ کی قسم کھانا شرک ہے تو غیر اللہ کو اللہ کے برابر ٹھہرانا کیا ہے؟ جب محض غیر اللہ کی قسم کھانا شرک ہے تو پھر اس خالص شرک کا کیا حال ہو گا جس میں جلبِ منفعت اور دفعِ ضرر کے لیے خالق و مخلوق کے درمیان برابری کی جاتی ہے، بلکہ کبھی تو خالق سے بڑھ کر مخلوق کی تعظیم کی جاتی ہے، جیسے اکثر نا بکار اور نکمے قسم کے لوگ کیا کرتے ہیں ۔ ان کا عقیدہ یہ ہوتا ہے کہ جو جلبِ نفع اور دفعِ ضرر اہلِ قبور سے ہوتا ہے، وہ اللہ تعالیٰ سے بھی نہیں ہوتا۔ تعالیٰ اللّٰه عن ذلک علوا کبیرا۔ اگر کسی شخص کو ہماری اس بات میں کلام ہو تو اسے پیر پرستوں اور گور پرستوں کے احوال پر غور کرنا چاہیے کہ ان کی حالت وہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بیان کی ہے: ﴿ وَاِِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَحْدَہُ اشْمَاَزَّتْ قُلُوْبُ الَّذِیْنَ لاَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَۃِ وَاِِذَا ذُکِرَ الَّذِیْنَ مِنْ دُوْنِہٖ اِِذَا ھُمْ یَسْتَبْشِرُوْنَ﴾ [الزمر: ۴۵] [اور جب اس اکیلے اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان لوگوں کے دل تنگ پڑجاتے ہیں جو آخرت پر یقین نہیں رکھتے اور جب ان کا ذکر ہوتا ہے جو اس کے سوا ہیں تو اچانک وہ بہت خوش ہو جاتے ہیں ] قبروں کو سجدہ گاہ بنانے کی ممانعت: صحیحین میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے وفات کے وقت ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ یہود و نصاریٰ پر لعنت کرے جنھوں نے اپنے پیغمبروں کی قبروں کو مسجد ٹھہرایا۔‘‘[2] آپ صلی اللہ علیہ و سلم گویا اپنی امت کو یہود و نصاریٰ کے اس عمل سے منع کر رہے تھے۔
Flag Counter