Maktaba Wahhabi

491 - 589
’’سنی‘‘ لفظ چھوڑ کر ’’بدعی‘‘ لفظ کیوں استعمال کریں ؟ قرآن و حدیث میں اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام آئے ہیں ۔ یہ اس کے مشہور اسما ہیں ۔ ان کے سوا اور بھی الفاظِ مدح قرآن و حدیث میں آئے ہیں ، جیسے ماہد، منشی، زارع۔ جو الفاظ زبانِ رسالت یا فرمانِ باری تعالیٰ میں مذکور ہیں ، انھیں الفاظ کو ثناے رب میں استعمال کرنا بہتر ہے۔ ان منصوص الفاظ کو بدلنا قطعاً درست نہیں ۔ اسی طرح قرآن و حدیث میں غیر وارد الفاظ کو ثناے رب میں استعمال کرنا ناجائز سمجھنا چاہیے۔ خواہ ان کے معنی درست ہی کیوں نہ ہوں ، جیسے اوّل، آخر اور اللہ کی جگہ واجب الوجود اور خدا کا استعمال۔ صفاتِ باری تعالیٰ: اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ وہ سب سے بڑا ہے۔ وہ معدوم نہیں ہو سکتا۔ جتنی صفاتِ کمال ہیں ، خواہ ذاتی ہوں یا فعلی، وہ سب سے متصف ہے، جیسے: علم، قدرت، حیات، سمع، بصر، ارادہ تکوین، کلام، رزق رسانی، تخلیق وغیرہ۔ جتنی صفاتِ نقص ہیں ، وہ ان سب سے پاک ہے، جیسے: عجز، جہل، کذب، ظلم، موت۔ خلق: تمام مخلوق کو اسی نے پیدا کیا ہے، جب خلق نہ تھی، تب بھی وہ ازل میں خالق تھا۔ جو کچھ عالمِ ملک و ملکوت میں ہے اور عالمِ لاہوت و ناسوت میں جو چیزیں موجود ہیں ، سب کو اسی نے پیدا کیا ہے۔ وہی سب کا خالق ہے۔ سبھی اس کی مخلوق ہیں ۔ انسان، جن، ملائکہ، شیاطین؛ سبھی کو اسی نے پیدا کیا ہے: ﴿ اَللّٰہُ خَالِقُ کُلِّ شَیْئٍ﴾ [الزمر: ۶۲] [اللہ ہر شے کا خالق ہے] خلق کہتے ہیں فعل، تکوین، ایجاد، احداث، اختراع اور ابداع وغیرہ کو۔ مختصراً خلق نام ہے معدوم کو وجود میں لانے کا اور یہ رب پاک کی ازلی صفت ہے۔ علم: موجودات، معدومات، ممکنات، مستحیلات، جزئیات اور کلیات تمام کا علم اللہ کو ہے۔ وہ زمین کی تہ سے آسمان کی چوٹی تک کی تمام چیزوں کو جانتا ہے۔ زمین و آسمان کے ذرے ذرے، چیونٹی کی چال اور اندھیری رات میں ٹھوس پتھر پر ذرے کی حرکت کا بھی اسے علم ہے۔ فرمایا: ﴿ اَلاَ یَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَھُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ﴾ [الملک: ۱۴]
Flag Counter