Maktaba Wahhabi

136 - 589
سے کنارہ کیا اور نہ ایمان ہی کو چھوڑا، بلکہ اطاعت کا التزام کیا، یہاں تک کہ اسی حالت پر فوت ہو گیا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس حدیث کے یہی معانی بیان کیے ہیں ۔ بر اہل استقامت فیض نازل میشود مظہر نمی بینی تجلی گرد کوہ طور میگردد [اہلِ استقامت پر ہی فیض نازل ہوتا ہے اے مظہر! کوہ طور کے آس پاس تجلی کو تو گھومتا ہوا نہیں دیکھے گا] سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا کہنا ہے کہ سارے قرآن میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر آیتِ کریمہ ﴿فَاسْتَقِمْ کَمَآ اُمِرْتَ﴾ [ھود: ۱۱۲] [پس تو ثابت قدم رہ، جیسے تجھے حکم دیا گیا ہے] سے سخت کوئی آیت نہیں اتری ہے۔ اسی لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے کہا تھا کہ آپ تو بہت جلد بوڑھے ہو گئے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’سورت ہود اور اس جیسی دوسری سورتوں نے مجھے بوڑھا کر دیا ہے۔‘‘[1]انتھیٰ۔ استقامت۔۔۔ حصولِ کمال کا ذریعہ ہے: قشیری رحمہ اللہ نے اپنے رسالے میں کہا ہے کہ تمام امور کا کمال اسی درجہ استقامت سے ہوتا ہے۔ نیکیوں کا حصول اور نظام اسی استقامت سے وابستہ ہے۔ جو شخص اپنی کسی بھی حالت پر استقامت اختیار کرنے والا نہیں ہے، اس کی سعی برباد اور اس کی کوشش بے کار ہے۔ اکابر کے سوا کسی کو استقامت اختیار کرنے کی طاقت نہیں ہوتی ہے، کیونکہ اس کے لیے مروجہ پختہ عادات کو چھوڑنا پڑتا ہے اور رسوم و رواج کو خیر باد کہنا اور اللہ کے سامنے حقیقتِ صدق پر کھڑا ہونا پڑتا ہے۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (( اِسْتَقِیْمُوْا وَلَنْ تُحْصُوْا )) [2] ’’استقامت اختیار کرو اور تم ہر گز اس کا احاطہ نہیں کر سکتے۔‘‘ واسطی رحمہ اللہ نے کہا ہے:
Flag Counter