Maktaba Wahhabi

463 - 589
مال کے ذریعے بہت سا فائدہ حاصل ہو گا یا میری کوئی تکلیف دور ہو جائے گی۔ قبر پرست نے قبر کے لیے جو نذر نکالی ہے، اسی اعتقاد کی بنا پر نکالی ہے اور یہ اعتقاد باطل ہے۔ اگر نذر ماننے والے کو یہ معلوم ہوتا کہ میرا یہ ارادہ اور منت باطل ہے تو وہ ایک درہم بلکہ ایک کوڑی بھی ہرگز نہ نکالتا، کیونکہ مال داروں کے ہاں مال عزیز ترین چیز ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَلاَ یَسْئَلْکُمْ اَمْوَالَکُمْ * اِِنْ یَسْئَلْکُمُوْھَا فَیُحْفِکُمْ تَبْخَلُوْا وَیُخْرِجْ اَضْغَانَکُمْ﴾ [محمد: ۳۶، ۳۷] [اور تم سے تمھارے اموال نہیں مانگے گا۔ اگر وہ تم سے ان کا مطالبہ کرے، پھر تم سے اصرار کرے تو تم بخل کرو گے اور وہ تمھارے کینے ظاہر کر دے گا] لہٰذا غیر اللہ کے لیے نذر ماننے والے کو یہ بات بتا دینا چاہیے کہ تمھارا اس قسم کی نذر ماننا مال کو ضائع کرنے کے مترادف ہے۔ ایسا کرنا تیرے کچھ کام نہیں آ سکتا اور نہ تجھ سے کوئی بلا ٹال سکتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (( إِنَّ النَّذْرَ لَا یَأْتِيْ بِخَیْرٍ، وَإِنَّمَا یُسْتَخْرَجُ بِہٖ مِنْ مَالِ الْبَخِیْلِ )) [1] [نذر کوئی بھلائی نہیں لاتی، وہ صرف بخیل سے مال نکلوانے کا ایک ذریعہ ہے] غیر اللہ کی نذر کا مال کھانا حرام ہے: لہٰذا نذر ماننے والے کا مال اسے واپس کر دینا چاہیے۔ اس شخص کے لیے نذر کا یہ مال لینا بالکل حرام ہے اور اگر وہ لیتاہے تو وہ ناحق بلا معاوضہ نذر ماننے والے کا مال کھاتا ہے۔ جبکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿ وَ لَا تَاْکُلُوْٓا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ﴾ [البقرۃ: ۱۸۸] [اور اپنے مال آپس میں باطل طریقے سے مت کھاؤ] بلکہ اس سے تو غیر اللہ کی نذر ماننے والے کے شرک اور اس کے برے اعتقاد کی تقریر و تاکید ہوتی ہے جو اس کے شرک پر راضی ہونے کے برابر ہے، جبکہ شرک پر راضی ہونے والے کا حکم کسی سے مخفی نہیں ہے۔
Flag Counter