Maktaba Wahhabi

70 - 589
8۔نالۂ دل، 9۔خرمن گل، 10۔تعلیم و تربیت، ! البیان۔ ۱۹؍ نومبر ۱۹۳۶ء (۳؍ رمضان المبارک ۱۳۵۵ھ) کو اپنی کوٹھی بھوپال ہاؤس لال باغ لکھنؤ میں ۷۲ برس کی عمر میں وفات پائی۔ سید احمد حسن عرشی: اب نواب صاحب کے بھائی سید احمد حسن عرشی رحمہ اللہ کے مختصر حالات ملاحظہ ہوں ، جو نواب صاحب رحمہ اللہ سے عمر میں دو سال بڑے تھے۔ ۱۹؍ رمضان ۱۲۴۶ھ (۳؍ مارچ ۱۸۳۱ء) کو قنوج میں پیدا ہوئے۔ آغازِ تعلیم گھر ہی میں ہوا۔ پھر تکمیلِ علوم کان پور، فرخ آباد، بریلی اور علی گڑھ میں ہوئی۔ علی گڑھ میں حضرت شاہ عبد الجلیل رحمہ اللہ سے سلسلۂ تعلیم جاری رہا، جنھوں نے ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں انگریزی حکومت سے جہاد کرتے ہوئے علی گڑھ میں جامِ شہادت نوش کیا۔ کتبِ حدیث شیخ عبد الغنی مجددی دہلوی رحمہ اللہ سے ان کے زمانۂ قیام مدینہ منورہ میں پڑھیں ۔ اسی دور میں شیخ محمد عابد سندھی رحمہ اللہ (متوفی ماہِ ربیع الاول ۱۲۵۷ھ) سے سند و اجازۂ حدیث حاصل ہوا۔ دہلی کے بعض علماے کرام سے بھی استفادہ کیا۔ عربی، فارسی اور اردو تینوں زبانوں میں شعر کہتے تھے۔ فارسی اور اردو میں مرزا غالب سے مشورۂ سخن حاصل تھا۔ خود فرماتے ہیں : مغلوب ہیں سب اہلِ جہاں میرے سخن سے ہوں زلہ رُبا غالب اعجاز رقم کا زیارتِ حرمین شریفین کے بے حد شائق تھے۔ تیسری مرتبہ بہ ارادۂ حج گھر سے روانہ ہوئے۔ بڑودہ میں مولوی غلام حسین بن مولانا رستم علی قنوجی کے مکان پر ٹھہرے۔ وہیں شدید بخار میں مبتلا ہو کر سفرِ آخرت پر روانہ ہوئے۔ یہ حادثہ ۹؍ جمادی الاولیٰ ۱۲۷۷ھ (۲۳؍ نومبر ۱۸۶۰ء) کو پیش آیا۔ صرف تیس سال عمر پائی۔[1] اللّٰهم اغفرلھم وارحمھم وعافھم واعف عنھم۔ ایک عجیب واقعہ: نواب صاحب رحمہ اللہ کی وجہ سے بہت سے اہلِ علم بھوپال آئے اور بھوپال نے مجمع علما اور مرکز شعرا کی حیثیت اختیار کر لی۔ ان میں سے متعدد حضرات کا تذکرہ ڈاکٹر رضیہ حامد نے اپنی کتاب
Flag Counter