Maktaba Wahhabi

572 - 589
تک وہ کافر نہیں ہوتا، البتہ قتل کے لائق ہوتا ہے، اسے مرتد کی طرح قتل کیا جا سکتا ہے۔ انھوں نے حدیث کی یہ تاویل کی ہے کہ ترکِ صلات سے مراد وجوبِ صلات کا انکار ہے نہ کہ ترکِ نماز۔ لیکن اس میں شک نہیں کہ جو حدیثیں اس باب میں آئی ہیں ، ان کے الفاظ ترکِ صلات کے کفر ہونے پر دلیل ہیں ۔ ان سے فرضیتِ صلات کا انکار سمجھنا درست نہیں ۔ علامہ ابن القیم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب الصلاۃ میں تارکِ صلات کے کفر کو راجح قرار دیا ہے۔ یہی بات صحیح معلوم ہوتی ہے۔ اکثر علما جو تارکِ صلات کو کافر کہتے ہیں ، تارکِ صیام، حج اور زکات کو فاسق بتلاتے ہیں ، اسے کافر نہیں کہتے، حالانکہ اس تفریق کی کوئی آیت یا حدیث موجود نہیں ، بلکہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ان سب عبادات کا حکم ایک ہے، کیونکہ یہی چیزیں اسلام کی بنیاد ہیں ۔ جس گھر کی ایک دیوار بھی گر جاتی ہے، وہ گھر محفوظ نہیں رہتا، اسی طرح جب ان ارکانِ اربعہ میں سے ایک رکن کو بھی عمداً ترک کیا جائے تو خانہ اسلام ویران ہو جائے گا اور صاحب خانہ کافر بن جائے گا۔ اس کا حال وہی ہو گا، جو کفار کا حال نارِ جہنم میں ہو گا، اس کی مغفرت کی بھی امید نہیں ہے۔ جنت کسی کے لیے واجب نہیں : اہلِ حدیث کہتے ہیں کہ جنت کسی کے لیے واجب نہیں ، خواہ اس کے اعمال کتنے ہی اچھے ہوں ۔ فضلِ الٰہی ہی سے کسی کے لیے جنت واجب ہو سکتی ہے، کیونکہ اس نے جو نیک کام کیے ہیں ، وہ اللہ کے آسان کرنے سے ہوئے ہیں ۔ اگر اللہ ان کو آسان نہ کرتا تو کبھی وہ کام اس شخص سے نہ بنتا۔ اگر اسے اللہ کی طرف سے توفیقِ ہدایت نہ ملتی تو کبھی وہ راہِ راست پرنہ آتا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَلَوْلاَ فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُہٗ مَا زَکٰی مِنْکُمْ مِّنْ اَحَدٍ اَبَدًا وَّلٰکِنَّ اللّٰہَ یُزَکِّیْ مَنْ یَّشَآئُ﴾ [النور: ۲۱] [اگر تم پر فضلِ الٰہی و رحمتِ ربانی نہ ہوتی تو تم سے کوئی ہر گز پاکیزہ نہ رہ پاتا، لیکن اللہ جسے چاہتا ہے اس کا تزکیہ کر دیتا ہے] شفاعتِ محمدی: اہلِ سنت اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم گناہ گارانِ اہلِ توحید کی شفاعت کریں گے اور مرتکبینِ کبائر کو بخشوائیں گے۔ حدیث میں آیا ہے:
Flag Counter