Maktaba Wahhabi

328 - 589
جو اللہ کے سوا کسی کے لائق نہیں ہے تو وہ بھی کافر ہے، جب اس پر ایسی حجت قائم ہو جائے کہ اس حجت کا تارک کافر ٹھہرے۔ اسی لیے ابویزید بسطامی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے: مخلوق کا مخلوق سے مدد مانگنا ایسا ہے جیسے کوئی ڈوبنے والا کسی ڈوبنے والے سے استغاثہ کرے۔ یا جس طرح ابو عبداللہ قرشی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ مخلوق کا مخلوق سے مدد مانگنا ایسا ہے جیسے کوئی قیدی کسی قیدی سے استغاثہ کرے۔‘‘[1] 2۔ استعانت: استعانت کا مطلب ہے مدد کا طالب ہونا۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ امورِ دنیا میں مخلوق سے مدد طلب کرنا جائز ہے، جیسے یہ کہنا: ہمارا سامان لاد دو۔ ہمارے جانور کو کھانا کھلا دو، یا ہمارا پیغام پہنچا دو یا ہمارا گھر بنا دو۔ رہے وہ کام جن پر اللہ کے سوا کسی کو قدرت حاصل نہیں ہے تو ان کاموں میں اگر وہ اللہ کے سوا کسی اور سے مدد چاہے تو یہ حرام یا شرک ہے، جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ﴾ [الفاتحۃ: ۴] [ہم صرف تیری عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں ] مذکورہ آیت میں مفعول مقدم آنے والی ترکیب حصر کا فائدہ دیتی ہے۔ 3۔ تشفع: تشفع کا مطلب ہے مخلوق سے سفارش چاہنا۔ اس میں بھی مسلمانوں کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے کہ جن دنیوی امور میں بندوں کو قدرت ہے، ان امور میں ان سے سفارش لی جا سکتی ہے، کیونکہ یہ جائز ہے۔ سنتِ متواترہ اور تمام امت کے اتفاق سے یہ بات ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم شافع و مشفع ہیں اور قیامت کے دن مخلوق کی سفارش کریں گے۔ وہ اس طرح کہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے طالبِ شفاعت ہوں گے اور عرض کریں گے کہ آپ اللہ تعالیٰ کے پاس ہماری شفاعت کر دیجیے۔[2] اس مسئلے میں اگر اختلاف ہے تو اس نقطے پر کہ یہ شفاعت گناہ گاروں کے گناہ مٹانے کے لیے ہو گی یا فرماں برداروں کے ثواب میں اضافے کی خاطر ہوگی؟ لیکن مسلمانوں میں سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی
Flag Counter