Maktaba Wahhabi

520 - 589
سید محمد بن اسماعیل امیر صنعانی رحمہ اللہ نے اسماے الٰہیہ کے اطلاق کا ضابطہ یہ بیان کیا ہے: 1۔وہ نام جو دعا، ندا اور حاجت برآری اور مشکل کشائی کے لیے پکارے جاتے ہیں ، جیسے: یا غفور، یارحیم، یا رزاق، یا حی، یا قیوم برحمتک أستغیث۔ 2۔وہ نام جو بابِ اخبار میں آتے ہیں ، جیسے: ’’اللّٰه مومن‘‘ ’’اللّٰه متکلم‘‘ اس طرح سے ان کا بولنا درست ہے۔ دعا میں یہ اسما نہیں بولے جاتے، مثلاً یوں نہیں کہا جاتا: ’’یا متکلم اغفر لي‘‘ یہی حال لفظ ماہد و زارع کا بھی ہے۔ یہ اسما اگرچہ نصاً وارد ہیں ، لیکن انھیں اخبار سے نکال کر دعا میں استعمال نہیں کر سکتے۔ امام رازی رحمہ اللہ کا خیال ہے کہ اسما و صفات تین طرح کے ہیں ۔ ایک وہ جو قطعاً ثابت ہیں ، دوسرے وہ جو قطعاً ممنوع ہیں ، تیسرے وہ جو کسی کیفیت کے ساتھ وابستہ ہیں ۔ پہلی قسم میں وہ نام آتے ہیں جو مفرداً و مضافاً دونوں طرح بولے جاتے ہیں ، جیسے قادر، قاہر، دوسرے یہ کہ کسی صفتِ رب یا اسمِ الٰہی کے ساتھ قبیح شے کا ذکر کیا جائے، جیسے یہ کہا جائے: ’’خَالِقُ الْقِرَدَۃِ‘‘ [بندر کو پیدا کرنے والا] تیسرے وہ نام ہیں جن کا اطلاق مفرداً درست نہیں ، مگر مضافاً درست ہے، جیسے منشی ہے کہ منشی الخلق درست ہے، مگر صرف منشی کہنا درست نہیں ۔ دوسری قسم کی توجیہ کی صورت یہ ہے کہ بہت سے اسما سمعاً وارد ہیں ، ان کا اطلاق جائز ہے اور اس کو مناسب مقام پر محمول کریں گے۔ تیسری قسم وہ ہے کہ اسما سمعاً آئے ہیں ، ان کا اطلاق درست ہے، مگر اس پر قیاس کرنا یا اشتقاق کے ذریعے سے ان میں تصرف کرنا جائز نہیں ، جیسے ﴿وَ مَکَرَ اللّٰہُ﴾ ﴿وَیَسْتَھْزِیُٔ بِھِمْ﴾ ان دونوں فعلوں سے اشتقاق کر کے ’’ما کر‘‘ و ’’مستہزی‘‘ کہنا جائز نہیں ہے۔ اہلِ علم کی ایک جماعت نے اسماے حسنٰی کی شرح عربی، فارسی بلکہ اردو میں بھی لکھی ہے۔ اس سلسلے میں بہترین بات وہ ہے جو بیہقی رحمہ اللہ نے حلیمی رحمہ اللہ کے حوالے سے کتاب ’’الأسماء و الصفات‘‘[1] میں اور شوکانی رحمہ اللہ نے شرح عدۃ[2] میں یا مفسرین و محدثین نے متعلقہ آیات کی تفسیر اور احادیث کی تشریح میں لکھا ہے۔ انھوں نے اس آیت: ﴿ وَ ذَرُوْا الَّذِیْنَ یُلْحِدُوْنَ فِیْٓ اَسْمَآئِہٖ سَیُجْزَوْنَ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْن﴾ [الأعراف: ۱۸۰]
Flag Counter